• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شرم الشیخ میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ مکمل،امن کی نئی صبح کا آغاز

Updated: October 15, 2025, 10:03 AM IST | Agency | Cairo

معاہدہ پرامریکی صدر ٹرمپ ،مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی ،امیر قطر تمیم بندحمد آل ثانی اورترک صدر رجب طیب اردگان نے دستخط کئے،مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیاکہ مشرق وسطیٰ مزید جنگوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

US President Trump addresses the Gaza peace conference in Sharm el-Sheikh, Egypt. Photo: Agency
مصر کے شرم الشیخ میںہوئی غزہ امن کانفرنس سے امریکی صدر ٹرمپ خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر: ایجنسی
مصری شہر شرم الشیخ میں پیر کے روز منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس میں امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کے سربراہوں نے ایک جامع دستاویز پر دستخط کیے جسے ’غزہ پر جنگ کے خاتمے اور خطے میں امن و خوشحالی کے قیام‘ سے متعلق معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔امریکی وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ’ ضمانتوں کی دستاویز‘ ہے جس پر شرم الشیخ میں دستخط کیے گئے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ ’امن اور خوشحالی کی نئی امید‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہےجو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی سربراہی میں طے پایا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ تمام فریق تاریخی عزم کے ساتھ اس امن معاہدے پر عملدرآمد کیلئے پُر عزم ہیں جو خطے میں ۲؍ برسوں سے جاری خونریز جنگوں اور تباہی کے خاتمے کا آغاز ہے۔ معاہدے کو’امید، سلامتی اور مشترکہ مستقبل کے ایک نئے باب‘ کا نام دیا گیا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کوششوں سے غزہ  جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کی کوششوں کی مکمل حمایت کی جاتی ہے۔‘‘ فریقین نے عہد کیا کہ وہ خطے کے تمام عوام بشمول فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کیلئے امن ، سلامتی، استحکام اور مواقع فراہم کرنےکیلئے مل کر کام کریں گے۔
’’ہم نے وہ حاصل کرلیا جو ناممکن سمجھا جارہا تھا‘‘ 
معاہدہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے  اعلان کیا کہ یہاں جمع ہونے والے لیڈروں نے  وہ حاصل کر لیا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔‘‘ اور ’’بالآخر، ہمیں مشرقِ وسطیٰ کو امن نصیب ہو گیا ہے۔‘‘غزہ امن کانفرنس کے دوران انہوں نے مصر، قطر اور ترکی کے رہنماؤں کے ساتھ پیر کے روز اس اعلامیہ پر دستخط کیے جو جنگ بندی معاہدے کے ضامن کے طور پر سامنے آئے۔تقریب میں دنیا کے۲۰؍سے زائد لیڈران شریک ہوئے جن میں اردن کے بادشاہ عبداللہ، ترک صدر رجب طیب اردگان، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، فرانس  کے صدر ایمانوئل میکروں، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر ، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ، عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی اور اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی  شامل تھیں۔
اعلامیہ کے مطابق، دستخط کرنے والے ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ  امن، سلامتی اور باہمی خوشحالی کے ایک جامع تصور کو آگے بڑھائیں گے  اور وہ  غزہ  پٹی میں جامع اور پائیدار امن انتظامات کے قیام میں حاصل ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی اور اسرائیلی دونوں ہی بنیادی انسانی حقوق، سلامتی اور عزت کے ساتھ ساتھ ترقی کے مساوی مواقع حاصل کریں ۔ اعلامیہ کے مطابق تنازعات کے حل کیلئے طویل جنگوں یا طاقت کے استعمال کے بجائے سفارتی مکالمہ اور بات چیت ہی پائیدار راستہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اب مزید تباہ کن جنگوں یا نامکمل معاہدوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دستاویز میں ’عدم امتیاز، رواداری، انسانی وقار اور مساوی مواقع ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ’انتہا پسندی کے مکمل خاتمے ‘کا بھی عزم ظاہر کیا گیا  ۔ شرم الشیخ میں ہونے والی اس سربراہی کانفرنس کی مشترکہ صدارت مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کی ۔ دستاویز کے اختتام پر درج ہے۔ ’’ہم سب اس عہد کے ساتھ متحد ہیں کہ آئندہ نسلوں کے لیے امن کی بنیاد رکھیں گے تاکہ خطے کے لوگ عزت، امن اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔‘‘
اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں
پیر کی رات وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اسرائیل اورفلسطین کے درمیان امن کے آئندہ کے طریق کار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، نہ ہی  اس میں ایک ریاست یا دو ریاستی حل کا کوئی ذکر  ہے۔ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس واپسی کے دوران صحافیوں سے کہا ’’ہم غزہ کی تعمیر نو کی بات کر رہے ہیں، ایک یا دو ریاستوں کی نہیں ۔‘‘ لیکن مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ غزہ معاہدہ انسانی تاریخ کے ایک تکلیف دہ باب کو بند کرتا ہے اور دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ممکنہ رکاوٹوں میں سے ایک حماس کا اپنے ہتھیار نہ ڈالنے سے انکار ہے اور دوسری اسرائیل کی جانب سے غزہ سے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دینا ہے۔پیر کو حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ٹرمپ اور غزہ معاہدے کے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے رویے کی نگرانی جاری رکھیں اور  یہ یقینی بنایاجائے کہ وہ ہمارے عوام کے خلاف جارحیت دوبارہ شروع نہ کرے ۔ 
اس دوران قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے بھی ایسا انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں جاری مذاکرات کے دوران ثالث ممالک نے سب سے پیچیدہ اور حساس معاملات پر بات چیت مؤخر کر دی ہے کیونکہ فریقین فی الحال ان امور پر عملی طور پر تیار نہیں ہیں۔شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے امریکی جریدے نیویارک ٹائمس کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگر مذاکرات کے آغاز ہی سے تمام امور کو شامل کیا جاتا تو پیش رفت مکمل طور پر رک جاتی۔انہوں نے وضاحت کی کہ مذاکراتی عمل میں مرحلہ وار پیش رفت کے نتیجے میں ٹھوس کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جن میں جنگ بندی کا نفاذ اور فلسطینی اسیران کی رہائی کا پہلو نمایاں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK