Updated: October 10, 2025, 1:06 PM IST
| Washington
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے۲۰؍ نکاتی امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے اعلان نے جہاں غزہ میں امید کی کرن پیدا کی ہے، وہیں فلسطینی نژاد امریکیوں میں غم، تھکن اور محتاط خوشی کی فضا ہے۔ دو برسوں کی تباہی، نسل کشی اور بے بسی کے بعد یہ امن معاہدہ بہتوں کیلئے راحت سے زیادہ ایک دردناک یاد کی تجدید بن گیا ہے۔
فلسطینی نژاد امریکیوں میں محتاط خوشی کی فضا ہے۔ تصویر: آئی این این
جب لیلہ ناصر کے فون پر جنگ بندی کی خبر آئی تو اُس نے خوشی نہیں منائی۔ ڈیربورن، مشی گن کے اپنے باورچی خانے میں بیٹھی۳۴؍ سالہ معلمہ خاموشی سے رونے لگی۔ ’’لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک نسل کشی تھی۔ ‘‘ انہو نے دھیرے سے کہا۔ ’’ہم نے اپنے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا۔ اپنے فونز پر، ہر روز، دو سال تک، ہر ایک دن۔ ’’
۸؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ۲۰؍نکاتی امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اسرائیل اور حماس کے دستخطوں کے اعلان نے فلسطینی نژاد امریکیوں، خاص طور پر مشی گن کی عرب آبادی میں، ملی جلی کیفیات پیدا کی ہیں۔
یہ معاہدہ لڑائی میں وقفہ، قیدیوں کے تبادلے، اور اسرائیلی فوج کے جزوی انخلا کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن بہت سوں کیلئے یہ راحت غم اور بے یقینی کے ساتھ ملی جلی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شروع کی گئی جنگ کے بعد سے۶۷؍ ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ غزہ میں ایک لاکھ ۶۸ء ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے، اور۹۰؍ فیصد گھروں کو تباہ کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے محققین کے مطابق اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی کابینہ کی حماس کے ساتھ غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کے معاہدے کی توثیق
ڈیٹرائٹ میں، امیرہ خلیل نامی نرس، جن کا خاندان رفح میں ہے، خوشی میں شامل نہیں ہو سکی۔ انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا ’’مجھے معلوم ہے کہ غزہ میں لوگ جشن منا رہے ہیں، سڑکوں پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ وہ اس کے حقدار ہیں، کیونکہ وہ زندہ بچ گئے۔ مگر میرا دل اُن دو برسوں میں جو کچھ ہوا، اُس پر غمگین ہے۔ میرا فون اب بھی اُن رشتہ داروں کے پیغامات سے بجتا رہتا ہے جو اب بھی خیموں میں ہیں۔ ہم نے ایک پوری نسل کھو دی۔ جن اسپتالوں میں مَیں نے تربیت حاصل کی تھی، وہ ختم ہو گئے۔ اسکول ملبے میں بدل گئے۔ جنگیں سیاسی معاہدوں سے ختم ہوتی ہیں، ہاں، لیکن ہمارے لوگوں نے اپنی جانوں سے قیمت ادا کی بِدَمنا اور اپنے بچوں سے۔ ‘‘
قریب ہی ہیمٹرمک میں، یوسف منصور کو اپنے دوسرے کزن کی یاد آئی، جو پچھلے بہار میں ایک فضائی حملے میں مارا گیا، ایک ابھرتا ہوا فٹبالر تھا۔ انہوں نے کہا ’’جنہوں نے ایسے غزہ کا خواب دیکھا تھا جس میں فلسطینی نہ ہوں ؟وہی لوگ ہار گئے۔ ہم اب بھی یہاں ہیں۔ الحمدللہ، ہم اب بھی کھڑے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل اور حماس غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر متفق، عالمی لیڈران کا خیرمقدم
محتاط امید
ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ، جس کی حمایت مصر، ترکی اور قطر کر رہے ہیں، لڑائی روکنے اور ایک طویل جنگ بندی کیلئے مرحلہ وار عمل شروع کرنے کا مقصد رکھتا ہے۔ حماس نے منصوبے کے کچھ حصے قبول کر لئے ہیں اور یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے فہرستیں فراہم کر دی ہیں جس سے کچھ حلقوں میں نازک سی امید پیدا ہوئی ہے۔ مگر عرب نژاد امریکیوں میں امید اب بھی محتاط ہے۔ عرب امیریکنز فار پیس کے قومی چیئرمین ڈاکٹر بشارہ بہ بہ نے ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا مگر احتیاط کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا ’’ہم صدر ٹرمپ کے امن کیلئے غیر متزلزل عزم اور دہائیوں سے جاری تنازع کے درمیان سفارت کاری کی قوت دکھانے پر اُنہیں سراہتے ہیں۔ یہ معاہدہ صرف ایک سفارتی کامیابی نہیں، بلکہ ہزاروں خاندانوں کیلئے زندگی کی ایک لکیر ہے جو بہت عرصے سے جنگ کے سائے میں جی رہے تھے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا ’’صدر ٹرمپ کا کردار دنیا کو یہ یاد دلاتا ہے کہ جب سیاسی ارادہ اور جرات مند قیادت موجود ہو تو امن ہمیشہ ممکن ہوتا ہے۔ لیکن صرف دستخط کافی نہیں غزہ کی روح کو دوبارہ تعمیر کرنے میں وقت لگے گا۔ ‘‘
تاہم، نیویارک کے بے رج میں ۲۸؍سالہ غیر منافع بخش ادارے کی کارکن رانیا عودہ تھکی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا ’’سب لوگ مراحل، نکات، اور مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں غزہ کو ابھی کیا چا ہئے؟ دوا، پناہ، وہ چیزیں جو انسانوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ ‘‘ایناہائم، کیلیفورنیا میں نادیہ قاسم نے اپنے اپارٹمنٹ سے خبر دیکھی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء پر اختلاف برقرار
اور انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو فون پر بتایا کہ ’’میں مطمئن ہوں۔ قتل و خون ریزی کا رک جانا کسی بھی صورت میں شکر کا باعث ہے۔ مگر یہ ایک بہت طویل اور بہت مشکل راستے کا آغاز ہے۔ ہم یہ غم شاید بہت عرصے تک اٹھائے پھریں گے۔ ‘‘
ڈیربورن میں لیلہ گویا ہوئی:’’لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا مجھے امید ہے؟ مجھے ہونی چاہئے۔ ورنہ متبادل کیا ہے؟ ہم نے بہت زیادہ تباہی دیکھی ہے۔ ‘‘ڈیٹرائٹ میں امیرہ نے بھی یہی غیر یقینی کیفیت بیان کی۔ ’’یہاں سب بھی تھک گئے ہیں۔ جب بھی غزہ جلتا ہے، ہم یہاں تھوڑا سا مر جاتے ہیں۔ دیکھتے رہتے ہیں، انتظار کرتے ہیں، بے بس۔ ‘‘ امیرہ نے کہا’’امن تب معنی رکھے گا جب غزہ کی گلیاں پھر سے بچوں سے بھری ہوں، ملبے سے نہیں۔ ان شاء اللہ، یہ کسی حقیقی انجام تک پہنچے۔ ‘‘
’’ہم میں سے زیادہ تر رونا چاہتے ہیں ‘‘
واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے اردگرد فضا سفارت کاری اور وراثت کی باتوں سے گونج رہی تھی۔ جمعرات کو کابینہ کے اجلاس کے آغاز پر ٹرمپ نے کہا:’’مجھے لگتا ہے یہ ایک پائیدار امن ہوگا، ان شاء اللہ ایک دائمی امن۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن۔ ‘‘غزہ کے امن منصوبے پر مذاکرات مصر کے شہر شرم الشیخ کے ایک سخت حفاظتی مرکز میں بند دروازوں کے پیچھے جاری ہیں۔ ٹرمپ ہفتے کے اختتام پر مصر اور اسرائیل کے دورے پر جانے والے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے دور، یورپی اور عرب لیڈران پیرس میں جمع ہیں تاکہ جنگ کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کریں۔ دنیا بھر میں لاکھوں فلسطینیوں کیلئے یہ تیز رفتار سفارتی سرگرمیاں ذاتی اور ناقابلِ فرار ہیں۔ فون پر ایک گہرا سانس لیتے ہوئے امیرہ نے آہستگی سے کہا:’’شاید ایک دن یہ معاہدہ واقعی کچھ معنی رکھے۔ آج رات، ہم میں سے زیادہ تر صرف رونا چاہتے ہیں اُس کیلئے جو ہم پر گزری، اور اس شکر کیلئے کہ بمباری آخرکار رک گئی۔ ‘‘