Updated: October 09, 2025, 11:14 AM IST
| Gaza
دو سال سے جاری غزہ جنگ اور انسانی بحران کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان بالآخر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر مبنی امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی اور قطر، مصر، و ترکی کی کوششوں سے طے پایا۔ اس موقع پر کئی اہم عالمی لیڈران نے امن منصوبے کا خیر مقدم کیا۔ جنگ بندی کے اعلان سے اہل غزہ میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہے۔
غزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد کچھ نوجوان خوشیاں مناتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے جس کا مقصد اس اسرائیلی نسل کشی کو ختم کرنا ہے جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں فلسطینی علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے اور ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ جس پر جمعرات کو دستخط ہونے والے ہیں، اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کی رہائی کے ساتھ دو سال سے زیادہ عرصے سے جاری محاصرے کے بعد غزہ میں امداد میں اضافے کو بھی شامل کرتا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مطابق، مصر میں ہونے والی بات چیت کے بعد ان کے۲۰؍ نکاتی امن منصوبے کے نتیجے میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ اسرائیل اپنی فوجوں کو ایک متفقہ لکیر تک واپس کھینچ لے گا۔
حماس کے اندر ایک ذریعے نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اس معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت حماس۲۰؍ زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے تقریباً۲؍ ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق، یہ تبادلہ معاہدے پر عمل درآمد کے۷۲؍ گھنٹوں کے اندر مکمل ہوگا، جس پر جمعرات کو دستخط کئے جانے کی توقع ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے۲۵۰؍ فلسطینی جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور۱۷۰۰؍ دیگر فلسطینی، جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں، جنہیں نسل کشی کے آغاز سے اسرائیل نے اغوا کیا تھا، رہا کئے جائیں گے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، ہر اسرائیلی قیدی کی لاش کے بدلے اسرائیل غزہ سے تعلق رکھنے والے۱۵؍ فوت شدہ فلسطینیوں کی لاشیں واپس کرے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم کی طرف سے ٹیلیگرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیل کو فلسطینی قیدیوں کی فہرستیں جمع کرائی ہیں۔ حماس نے کہا کہ وہ ’’ناموں پر حتمی اتفاق‘‘ کی منتظر ہے اس سے پہلے کہ وہ انہیں عوامی طور پر ظاہر کرے۔ حماس نے تصدیق کی کہ نسل کشی کو ختم کرنے کیلئے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس میں اسرائیلی افواج کی پسپائی اور قیدیوں کے تبادلے کی شقیں شامل ہیں۔ تاہم، گروپ نے صدر ٹرمپ اور ضامن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل مکمل طور پر جنگ بندی پر عمل کرے۔ بدھ کو اس سے قبل، حماس نے کہا تھا کہ اس نے اسرائیل کے پاس موجود فلسطینی قیدیوں اور اپنے قبضے میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی فہرست حوالے کر دی ہے، جن کے تبادلے کی خواہش کی گئی ہے۔
ایک فلسطینی ذریعے کے مطابق، جسے مذاکرات کی تفصیلات کا علم ہے، حماس کی فہرست میں بعض ایسے نمایاں فلسطینی قیدی شامل ہیں جنہیں اسرائیل نے برسوں سے قید رکھا ہے اور جن کی رہائی ماضی کی جنگ بندیوں میں ممنوع سمجھی جاتی تھی۔ ذرائع کے مطابق، ان میں فتح تحریک کے لیڈرمروان البرغوثی اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے سربراہ احمد سعدات شامل ہیں، جو متعدد عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
ہماری قوم کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی:حماس
دوسری جانب، حماس نے قطر، مصر، ترکی اور امریکہ کی ان کوششوں کو سراہا ہے جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کیلئے کی جا رہی ہیں۔ ’’ہم اپنے برادر ممالک قطر، مصر اور ترکی کے ثالثی کردار کی اعلیٰ قدر کرتے ہیں، اور ہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ان کوششوں کو بھی سراہتے ہیں جو جنگ کے مکمل خاتمے اور غزہ پٹی سے قابض افواج کے انخلا کیلئے کی جا رہی ہیں، ‘‘ حماس نے ایک بیان میں کہا۔ حماس نے صدر ٹرمپ، ضامن ممالک، اور تمام متعلقہ فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں پر عمل کرے۔ حماس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’’ہم اپنے عظیم عوام کو سلام پیش کرتے ہیں غزہ کی پٹی میں، بیت المقدس اور مغربی کنارے میں، اور اپنے وطن اور جلاوطنی میں جنہوں نے بے مثال عزت، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا، ان فاشسٹ قبضہ گیر منصوبوں کے خلاف جنہوں نے ان کے وجود اور قومی حقوق کو نشانہ بنایا۔ ان قربانیوں اور ثابت قدمی نے اسرائیلی قبضے کے ان منصوبوں کو ناکام بنایا ہے جو انہیں غلامی اور بے دخلی میں دھکیلنے کیلئے بنائے گئے تھے۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری قوم کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اور ہم اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی قوم کے قومی حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے جب تک آزادی، خودمختاری، اور خودارادیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء پر اختلاف برقرار
غزہ جنگ بندی پر عالمی لیڈران کا رد عمل
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر کہا ’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام یرغمالوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا، اور اسرائیل اپنی فوجوں کو ایک متفقہ لکیر کے پیچھے ہٹا لے گا، مضبوط، پائیدار اور ہمیشہ قائم رہنے والے امن کی طرف یہ پہلا قدم ہوگا۔ تمام فریقوں کے ساتھ انصاف سے پیش آیا جائے گا! یہ عرب اور مسلم دنیا، اسرائیل، تمام ہمسایہ ممالک، اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کیلئے ایک عظیم دن ہے، اور ہم قطر، مصر اور ترکی کے ان ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر اس تاریخی اور بے مثال واقعے کو ممکن بنایا۔ سلامتی اُن پر جو امن قائم کرتے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ نسل کشی کے ۲؍ سال: بنجامن نیتن یاہو کے ۹؍ جھوٹ اور حقیقت
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو
نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ’’اسرائیل کیلئے ایک عظیم دن ہے۔ کل میں حکومت کو اجلاس کیلئے بلاؤں گا تاکہ معاہدے کی منظوری دی جا سکے اور ہمارے تمام پیارے یرغمالوں کو واپس گھر لایا جا سکے۔ میں ہمارے بہادر آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) کے سپاہیوں اور تمام سیکوریٹی فورسیزکا شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کی بہادری اور قربانیوں کی بدولت ہم اس دن تک پہنچے ہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے یرغمالوں کی رہائی کے اس مقدس مشن کیلئے غیر معمولی محنت کی۔ ہم اپنے تمام اہداف حاصل کرنے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے دائرے کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ ‘‘
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر
اسٹارمر نے کہا ’’میں صدر ٹرمپ کے غزہ کیلئے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدہ طے پانے کی خبر کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ ایک گہرا سکون کا لمحہ ہے جسے دنیا بھر میں محسوس کیا جائے گا، خاص طور پر ان یرغمالوں، ان کے خاندانوں اور غزہ کے شہریوں کیلئے جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں ناقابلِ بیان مصائب برداشت کئے ہیں۔ اب اس معاہدے پر مکمل طور پر اور بلا تاخیر عمل درآمد ہونا چاہئے، اور غزہ کیلئے زندگی بچانے والی انسانی امداد پر عائد تمام پابندیوں کو فوراً ختم کیا جانا چاہئے۔ ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں، جنگ ختم کریں، اور ایک منصفانہ، پائیدار اور دیرپا امن کیلئے بنیادیں رکھیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل: ٹرمپ کی جنگ بندی اپیل نظر انداز، ۴؍ دن میں ۱۱۸؍ فلسطینی شہید
کنیڈا کی وزارتِ خارجہ (گلوبل افیئرز کنیڈا)
کنیڈا کی وزارتِ خارجہ نے ’ایکس‘ پر لکھا ’’ کنیڈا اسرائیل اور حماس کے درمیان صدر ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے نفاذ کے معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے، جس میں قطر، مصر اور ترکی نے سہولت فراہم کی۔ دو طویل برسوں کے بعد، یرغمالوں کو بالآخر اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کا موقع ملے گا اور اسرائیلی فوجیں متفقہ حدود کے پیچھے ہٹ جائیں گی۔ فوری اور بلا رکاوٹ انسانی امداد اُن لوگوں تک پہنچائی جانی چاہئے جو غزہ میں شدید ضرورت میں ہیں۔ کنیڈا ان تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو اس مثبت پیش رفت کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کیلئے پائیدار امن میں تبدیل کریں۔ ‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو غطریس
غطریس نے کہا ’’میں غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہوں، جو صدر ڈو نالڈ جے ٹرمپ کی تجویز پر مبنی ہے۔ میں امریکہ، قطر، مصر، اور ترکی کی سفارتی کوششوں کو سراہتا ہوں جنہوں نے اس نہایت ضروری پیش رفت کو ممکن بنایا۔ "میں تمام متعلقہ فریقوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کریں۔ تمام یرغمالوں کو باعزت طریقے سے رہا کیا جانا چاہئے۔ ایک مستقل جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے۔ لڑائی ہمیشہ کیلئے ختم ہونی چاہئے۔ انسانی امداد اور ضروری تجارتی سامان کی فوری اور بلا رکاوٹ رسائی غزہ میں ممکن بنائی جائے۔ یہ دکھ ختم ہونا چاہئے۔ اقوام متحدہ معاہدے کے مکمل نفاذ کی حمایت کرے گا، انسانی امداد کی فراہمی کو بڑھائے گا، اور غزہ میں بحالی و تعمیر نو کی کوششوں کو آگے بڑھائے گا۔ میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں تاکہ ایک قابلِ اعتبار سیاسی راستہ قائم کیا جا سکے جو قبضے کے خاتمے، فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کے اعتراف، اور دو ریاستی حل کے ذریعے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کیلئے امن و سلامتی کو ممکن بنائے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے؛ غزہ نسل کشی پر ممدانی کے پوسٹ پر اسرائیل برہم، نیویارک میں اسرائیلیوں کی ریلی میں ممدانی شریک ہوئے
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز
پیٹرز نے ایک بیان میں کہا’’حماس کو تمام یرغمالوں کو رہا کرنا چاہئے اور اسرائیل کو اپنی فوجوں کو متفقہ لائن کے پیچھے ہٹا لینا چاہئے۔ یہ پائیدار امن کے حصول کی سمت ایک اہم پہلا قدم ہے۔ ہم اسرائیل اور حماس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مکمل حل تک پہنچنے کیلئے کام جاری رکھیں۔