غزہ کے الشاطی پنا ہ گزین کیمپ میں ایک پروقار تقریب کے دوران۵۰۰؍فلسطینیوں کو اعزاز سے نوازا گیا جنہوں نے شدید جنگی حالات کے باوجود قرآنِ مجید حفظ کیا۔ یہ تقریب ایمان، صبر اور فلسطینی عوام کی غیر متزلزل استقامت کی علامت بن کر سامنے آئی۔
EPAPER
Updated: December 27, 2025, 6:59 PM IST | Gaza
غزہ کے الشاطی پنا ہ گزین کیمپ میں ایک پروقار تقریب کے دوران۵۰۰؍فلسطینیوں کو اعزاز سے نوازا گیا جنہوں نے شدید جنگی حالات کے باوجود قرآنِ مجید حفظ کیا۔ یہ تقریب ایمان، صبر اور فلسطینی عوام کی غیر متزلزل استقامت کی علامت بن کر سامنے آئی۔
جمعرات کو غزہ شہر کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں ۵۰۰؍ فلسطینیوں کو اعزاز سے نوازا گیا جنہوں نے اسرائیل کی جاری نسل کش جنگ اور محصور غزہ کی پٹی پر ہونے والی وسیع پیمانے کی تباہی کے باوجود قرآنِ مجید حفظ کیا۔ یہ تقریب مقامی دینی اور سماجی اداروں کے زیرِ اہتمام ہوئی جس میں کیمپ کے خاندانوں، علما، اساتذہ اور رہائشیوں نے شرکت کی جن میں سے بہت سے افراد جنگ کے دوران کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریب میں تلاوتِ قرآن، دعائیں اور تقاریر شامل تھیں، جن میں مسلسل بمباری، محاصرے اور انسانی المیے کے باوجود صبر، ایمان اور ثابت قدمی پر زور دیا گیا۔
منتظمین کے مطابق، اعزاز پانے والوں نے نہایت کٹھن حالات میں قرآن حفظ کیا، جن میں مسلسل فضائی حملے، بجلی اور صاف پانی کی قلت، محفوظ پناہ گاہوں کی کمی اور اہلِ خانہ کی شہادتیں شامل ہیں۔ بہت سے طلبہ نے بھیڑ سے بھرے پناہ گزین مراکز، تباہ شدہ گھروں یا عارضی کلاس رومز میں اپنی تعلیم جاری رکھی، جہاں وہ موم بتیوں کی روشنی یا محض اپنی یادداشت پر انحصار کرتے رہے، کیونکہ اسرائیلی حملوں میں غزہ بھر کی مساجد، مدارس اور تعلیمی مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں نے کہا کہ جنگ کے دوران قرآن حفظ کرنا نہ صرف ایک ذاتی روحانی کامیابی ہے بلکہ فلسطینی شناخت کے تحفظ اور اجتماعی مزاحمت کی علامت بھی ہے۔
ایک منتظم نے کہا:’’ایسے وقت میں جب اسرائیل ہماری زندگیوں، ہماری ثقافت اور ہمارے مستقبل کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، ان حافظوں اور حافظات نے اللہ کے کلام کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہے۔ ‘‘تقریب میں شریک مذہبی علما نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ طویل عرصے سے قرآن کی تعلیم کی مضبوط روایت رکھتا ہے، حالانکہ اسے برسوں سے محاصرے اور بار بار فوجی حملوں کا سامنا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران قرآن حفظ کے کئی مراکز کو نقصان پہنچا یا تباہ کر دیا گیا، لیکن اس کے باوجود رضاکارانہ کوششوں اور خاندانی نیٹ ورکس کے ذریعے تعلیم و تعلم کا سلسلہ غیر رسمی طور پر جاری رہا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں کرسمس پر امن اور تعمیرنو کی دعائیں
اعزاز پانے والوں کے اہلِ خانہ نے فخر اور جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کامیابی نے شدید مصائب کے درمیان امید کی کرن پیدا کی۔ والدین نے بتایا کہ بمباری کے دوران اور بگڑتے ہوئے حالات میں ان کے بچوں نے سکون اور حوصلےکیلئے قرآن کا سہارا لیا۔ تقریب کے اختتام پر غزہ کے شہدا، زخمیوں اور بے گھر افرادکیلئے اجتماعی دعائیں کی گئیں، اور محاصرے اور حملوں کے خاتمے کی التجا کی گئی۔ منتظمین نے کہا کہ ایسے پروگرام آئندہ بھی جاری رکھے جائیں گے تاکہ حوصلہ بلند کیا جا سکے، ایمان کو زندہ رکھا جا سکے اور یہ پیغام دیا جا سکے کہ غزہ کی روحانی اور ثقافتی زندگی اسے کچلنے کی کوششوں کے باوجود برقرار ہے۔ اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز سے اب تک دسیوں ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ علاقے کا بڑا حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وسیع تباہی کے درمیان، الشاطی کیمپ کی یہ تقریب استقامت، ایمان اور جاری جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئی۔