Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کیلئے امید کی بوتل: اناج سے بھری پلاسٹک کی بوتلیں بحیرۂ روم کے حوالے

Updated: July 24, 2025, 10:09 PM IST | Cairo

مصر کے نوجوانوں نے ’’سمندر سے سمندر تک، غزہ کیلئے امید کی بوتل‘‘ (فرام سی ٹو سی، اے بوٹل آف ہوپ فار غزہ) نامی مہم شروع کی ہے جس کے تحت بوتلوں کو اناج سے بھر کر بحیرۂ روم کے حوالے اس امید پر کیا جارہا ہے کہ یہ غزہ کے فلسطینیوں تک پہنچ جائیں جو اسرائیلی جارحیت کے سبب فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے غزہ کے حالات سے پوری دنیا باخبر ہے۔ فاقہ کشی کے خوفناک مناظر درد مند دل رکھنے والے ہر انسان کے رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہیں۔ فاقہ کشی کو ختم کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش مصریوں نے شروع کی ہے جسے ’’سمندر سے سمندر تک، غزہ کیلئے امید کی بوتل‘‘ (فرام سی ٹو سی، اے بوٹل آف ہوپ فار غزہ) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک علامتی اقدام ہے جس سے مصر کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد منسلک ہورہی ہے۔ گزشتہ دن وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک مصری نوجوان دو لیٹر کی پلاسٹک کی بوتلوں کو اناج، چاول، دال اور دیگر خشک خوراک کے سامان سے بھر کر بحیرۂ روم میں اس امید پر ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ تک پہنچ جائیں۔ اس مہم سے جڑنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ اسرائیلی پابندیوں کے خلاف ہماری ایک معمولی سی کوشش ہے۔ اسرائیل غزہ میں امدادی ٹرکوں کو داخل ہونے سے روک رہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سمندر کے ذریعے یہ معمولی سی خوراک غزہ تک پہنچ جائے جہاں لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ‘‘

 
 
 
 
 
View this post on Instagram
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Inquilab - انقلاب (@theinquilab.in)

وائرل ویڈیو میں مصری شخص بحیرۂ روم میں پہلی بوتل ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اے اللہ! اسے غزہ تک پہنچا دے۔‘‘ دوسری بوتل ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’میرے بھائیو(فلسطینی)! ہمیںمعاف کرنا ۔‘‘ پھر بوتل پھینکتا ہے اور کہتا ہے، ’’ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکے۔‘‘ پھر بوتل ڈالتا ہے اور کہتا ہے ’’امید ہے قیامت کے دن یہ بوتل مجھے محفوظ کرے گی۔‘‘ پانچویں بوتل ڈالتے ہوئے کہتا ہے، ’’اے اللہ! جس طرح تو نے بپھری لہروں پر نوحؑ کی کشتی کو محفوظ مقام پر پہنچایا، اسی طرح یہ بوتلیں غزہ تک پہنچا دے۔‘‘
اس اقدام میں حصہ لینے والے افراد نے لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش سمیت بحیرۂ روم سے متصل ممالک کے لوگوں سے بھی پلاسٹک کی بوتلوں کے ذریعے غزہ کو امداد پہنچانے کی اپیل کی ہے۔ مبینہ طور پر یہ خیال جاپان میں مقیم ایک مصری ماہر تعلیم اور انجینئر نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے تجویز کیا تھا کہ غزہ پر جاری ناکہ بندی کے پیش نظر سمندر کے ذریعے مدد پہنچانا زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ایک فیس بک پوسٹ میں انہوں نے وضاحت کی تھی کہ ایک مضبوطی سے بند ۲۵؍ لیٹر پلاسٹک کی بوتل میں تقریباً چھ سے آٹھ کلوگرام خوراک رکھی جاسکتی ہے۔ یہ غرق ہونے کے بجائے لہروں پر تیرتی رہے گی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’مخالف لہروں سے بچانے کیلئے بوتلوں کو ساحل سے کم از کم چار کلومیٹر کے فاصلے پر، شمال مشرق کی طرف ۶۰؍  ڈگری کے زاویے پر چھوڑا جانا چاہئے۔مشرقی بحیرۂ روم میں پانی مغرب سے مشرق کی طرف ۸ء۰؍ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بہتا ہے یعنی اگر ڈمیٹا یا پورٹ سعید کے مشرق جیسے علاقوں سے بوتلوں کو بھیجا جائے تو یہ ۷۲؍ سے ۹۶؍ گھنٹوں میں غزہ کے ساحلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ بہت سے آن لائن صارفین نے اس پوسٹ کو دیکھا اور امید ظاہر کیکہ شاید اس طرح غزہ کے فلسطینیوں کی مدد ممکن ہے اور اس تجویز پر عمل شروع کیا۔ بعض افراد نے کہا کہ ’’حکومت اپنے آپ کو بے بس اور مجبور ظاہر کرسکتی ہے، خاموش رہ سکتی ہے مگر ہم نہیں۔ ہم چھوٹا قدم اٹھا رہے ہیں اور اسی کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ بنانے کی کوشش کریں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK