پریشان حال مکینوں کیلئے خیراتی ادارے کھانےپینے کا انتظام کررہے ہیں،کھانا لینے کیلئے لوگوں کی بھیڑ، ایک شخص نےسوال کیا:یہاں ۵؍تا۶؍ہزار افراد کی بستی تھی ، اب وہ کہاں جائیں گے؟
EPAPER
Updated: December 01, 2023, 12:11 PM IST | Agency | Gaza
پریشان حال مکینوں کیلئے خیراتی ادارے کھانےپینے کا انتظام کررہے ہیں،کھانا لینے کیلئے لوگوں کی بھیڑ، ایک شخص نےسوال کیا:یہاں ۵؍تا۶؍ہزار افراد کی بستی تھی ، اب وہ کہاں جائیں گے؟
حماس اور اسرائیل کے بیچ جاری جنگ بندی کے دوران غزہ کے شہریوں نے دوبارہ اپنے گھروں کی جانب لوٹنا شروع کردیا ہے لیکن یہاں پہنچ کر انہیں اپنے گھر نہیں بلکہ چاروں طرف ملبہ ہی ملبہ نظر آرہا ہے۔ گھر نہ ہونے کی وجہ سےانہیں کھانے پینے کابھی سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ ایسے میں چند خیراتی ادارے لوگوں کیلئے کھانے پینے کا انتظام کررہے ہیں جہاں بڑی تعداد میں بچے ،خواتین اور معمرافراد قطار در قطار کھڑے ہیں۔
ایسے ہی خان یونس کےمضافات میں ابو تائمہ بستی کے لوگ بھیعارضی جنگ بندی کے دوران اپنےگھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں کاکہناہے کہ فلسطینی علاقے کو عارضٰی جنگ بندی نہیں مستقل جنگ بندی چاہیے۔خبروں کے مطابق ان مقامی لوگوں نے بمباری کی وجہ سےاپنا علاقہ اور گھربار چھوڑ کر نقل مکانی کرلی تھی اور جنگ بندی شروع ہونے تک واپس نہیں پلٹے تھے۔ بدھ کے روز جنگ بندی کا چھٹا دن تھا جب یہ واپس پہنچے۔
ایک فلسطینی شہرٹوٹ چکے مکان کی چھت پر کھڑے تھے اور ان کے آس پاس تباہ شدہ عمارتوں کےمناظر ہرطرف پھیلےہوئےہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے ، جنگ سےپہلے یہ ۵؍ تا ۶؍ہزار لوگوں کی بستی تھی ، یہ کہتے کہتے وہ پوچھتے ہیں کہ’’ اب وہ سب کہاں جائیں گے؟‘‘انہوں نے کہا’’میرا گھر تباہ ہو چکا ہے، میرےبھائی کاگھر بھی تباہ ہو گیا۔ میرے انکل اور میرےپڑوسی سبھی کے گھر تباہ کر دیے گئے۔ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم سب زلزلے والے علاقےمیں ہوں ، ہمیں جنگ بندی میں وقفہ نہیں مکمل جنگ بندی چاہیے۔‘‘
نبیل ایک اور فلسطینی ہیں ۔ یہ بھی ابو تائیمہ کے رہنے والےتھے۔ وہ ایک ملبے میں گھری چھت پر بیٹھ کرشیشہ پی رہے تھے۔ نزدیک ہی بچوں کا ایک گروپ مکانوں کےملبے کے نزدیک آگ سی جلا کر روٹی گرم کر رہا تھا۔یہ سب بچے تھوڑی سی روٹی آپس میں مل بانٹ کر کھا رہے تھے۔ ۳؍بچے ایک تباہ ہو چکی کار کی باڈی پر چڑھے۔ نیلے رنگ کی اس کار کی حالت کاغذ کی طرح ہوچکی تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو غطریس کے مطابق غزہ کے اب تک ۸۰؍فیصد لوگ بےگھرہوچکےہیں ۔ایک بڑی انسانی تباہی ہو چکی ہے۔
عبدالرحمان ابو تائمہ ایک قبیلے کے سردار ہیں انہی کے نام پر اس بستی کا نام ہے۔وہ اپنے بمباری سے تباہ ہو چکے اپارٹمنٹ سے کچھ تلاش کر رہے ہیں ۔ملبےسے ایک میٹرس اور کچھ کپڑے تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ابو تائمہ کہتے ہیں ’’میں ۳۰؍سال سے جدوجہد کر رہا ہوں ۔ مگر زندگی ایک ہی راستے پرہے۔ حتیٰ کہ جنگ سے پہلے بھی ناکہ بندی کی وجہ سے زندگی مشکل بنا رکھی تھی۔ ۲۰۰۷ءسےہی اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا’’پیسہ آسانی سے نہیں ملتا۔کچھ بناتےہیں تو اچانک پھر تباہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ابو تائمہ نےمزیدکہا’’ وقفے وقفے سے جنگ بندی کرنا مسئلے کا حل نہیں ، مسئلے کا مستقل حل نکلنا چاہیے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازعے کا حل چاہیے۔‘‘