Updated: June 13, 2025, 8:07 PM IST
| Cairo
مارچ کے منتظمین، جن میں فلسطینی یوتھ موومنٹ، کوڈ پنک ویمن فار پیس (امریکہ)، جیوش وائس فار لیبر (برطانیہ) اور شمالی افریقہ اور عالمی انسانی حقوق کے گروپس کا اتحاد شامل ہے، نے زور دیا کہ شہریوں کی قیادت میں ہونے والا یہ مارچ عدم تشدد پر مبنی اور غیر جانبدار ہے۔ غزہ میں خوراک، ادویات، ایندھن سمیت انسانی امداد کا داخلہ ان کے مطالبات میں شامل ہے۔
غزہ کی طرف عالمی مارچ کی پر امن تحریک میں شریک ہونے کیلئے ہزاروں بین الاقوامی کارکن مصر میں جمع ہورہے ہیں جس کا مقصد محصور فلسطینی علاقے پر عائد ناکہ بندی ختم کرنے اور رفح سرحد کے ذریعے انسانی امداد کی راہداری کھولنے کیلئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے۔ تاہم، کارکنوں کو مصری حکومت کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جنہوں نے ۱۵ جون کو شروع ہونے والے مارچ سے چند روز قبل ۲۰۰ سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا۔
عالمی مارچ برائے غزہ میں ۸۰ سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ۴ ہزار سے زائد کارکنان کے شریک ہونے کی توقع کی جارہی ہے جن میں نیلسن منڈیلا کے پوتے اور سابق جنوبی افریقی قانون ساز نکوسی زویلی ویلیل منڈیلا اور سابق امریکی محکمہ خارجہ کی سفارت کار ہالہ رحریت جیسی نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں۔ کارکنان مصری شہر العریش سے رفح کراسنگ تک تقریباً ۵۰ کلومیٹر پیدل چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اس پر امن تحریک کے ذریعے غزہ کے انسانی بحران کو اجاگر کیا جائے، جسے اقوام متحدہ نے "زمین پر سب سے بھوکا مقام" قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ: غزہ میں "فوری جنگ بندی" کی قرارداد منظور، امریکہ، اسرائیل تنہا رہ گئے، ہندوستان غیرحاضر
مارچ کے منتظمین، جن میں فلسطینی یوتھ موومنٹ، کوڈ پنک ویمن فار پیس (امریکہ)، جیوش وائس فار لیبر (برطانیہ) اور شمالی افریقہ اور عالمی انسانی حقوق کے گروپس کا اتحاد شامل ہے، نے زور دیا کہ شہریوں کی قیادت میں ہونے والا یہ مارچ عدم تشدد پر مبنی اور غیر جانبدار ہے۔ غزہ میں خوراک، ادویات، ایندھن سمیت انسانی امداد کا داخلہ ان کے مطالبات میں شامل ہے۔
مصری حکومت کا کریک ڈاؤن
۱۲ جون کو مصر کی سیکوریٹی فورسز نے مارچ کیلئے جمع ہوئے ایک مربوط کریک ڈاؤن شروع کیا۔ مارچ کے ترجمان سیف ابو کیشک کے مطابق، حکام نے قاہرہ بین الاقوامی ہوائی اڈے اور دارالحکومت کے ہوٹلوں سے ۲۰۰ سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ الجزائر، آسٹریلیا، فرانس، مراکش، نیدرلینڈز، اسپین، امریکہ اور یونان کے شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سادہ لباس میں ملبوس افسران نے ناموں کی فہرستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر چھاپے مارے، کارکنوں سے تفتیش کی، ان کے سامان کی تلاشی لی اور بعض کارکنوں کے فون تک ضبط کرلئے۔ گرفتار کارکنوں میں سے کچھ کو بعد میں رہا کر دیا گیا جبکہ دیگر کو ملک بدر کر دیا گیا۔ کم از کم ۷۳ غیر ملکی، جن میں زیادہ تر یورپی تھے، کو استنبول جانے والی پرواز پر ملک بدر کیا گیا جبکہ دیگر ۱۰۰ افراد ملک بدری کے منتظر ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج نے غزہ کے ۹۰؍ فیصد اسکول تباہ کردیئے، ۶۵۸۰۰۰؍ بچے تعلیم سے محروم
ایک فرانسیسی کارکن نے بتایا کہ اسے ۱۸ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔ اس نے کہا کہ میں دوبارہ کوشش کروں گی کیونکہ میں یہ فلسطین کیلئے کررہی ہوں۔ ہمیں ناکہ بندی ختم کرنی ہے۔ ایک یونانی وفد نے بتایا کہ ان کے گروپ کو ہوائی اڈے پر حراست میں لیا گیا حالانکہ ان کے پاس درست دستاویزات تھے اور انہوں نے قانونی داخلے کے تمام طریقہ کار پر عمل کیا گیا تھا۔ میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں ہوائی اڈے کے ہولڈنگ رومز میں کارکنان کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے، جہاں حراست میں لئے گئے کارکنان نے فلسطین کے حق میں نعرے بلند کئے۔ ایک جرمن شہری نے بتایا کہ وہ "۳۰-۴۰ لوگوں کے ساتھ بند کمرے میں" تھا اور اسے اپنے سفارتخانے سے بھی محدود اپ ڈیٹس ملے۔
مصری حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جواز پیش کیا کہ قومی سلامتی کے خدشات اور کارکنوں کی طرف سے حساس سینائی علاقے میں داخلے کیلئے مناسب اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کو ملک بدر کیا گیا۔ مصری وزارت خارجہ نے زور دیا کہ صرف سرکاری چینلز کے ذریعے کلیئر ہونے والے وفود کو سرحد تک جانے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں تباہی پر مانچسٹرسٹی کے منیجر پیپ گارڈیولا کی جذباتی تقریر، سوڈان،یوکرین،کانگو کا بھی ذکر کیا
مارچ جاری رہے گا
کریک ڈاؤن کے باوجود، منتظمین نے مارچ جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ ابو کیشک نے کہا کہ مصر میں موجود کارکنان مارچ کو انجام دینے کیلئے کافی ہیں۔ ہم العریش تک بسوں کے ذریعے سفر کریں گے، وہاں سے رفح تک ۵۰ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کریں گے، وہاں کیمپ لگائیں گے اور ۱۹ جون تک قاہرہ واپس لوٹ آئیں گے۔ عالمی مارچ برائے غزہ، شمالی افریقہ کے ایک قافلہ "صمود" (عربی لفظ، معنی "ثابت قدمی") کے ساتھ بھی مربوط ہے جو اس ہفتے کے شروع میں تیونس سے روانہ ہوا۔ یہ قافلہ، جو بسوں اور گاڑیوں پر مشتمل ہے، فی الحال لیبیا سے گزر رہا ہے اور اجازت ملنے پر مصر میں داخل ہو کر اس کے رفح تک پہنچنے کی توقع ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل ایران تنازع: ایران کا جوابی حملہ شروع، اسرائیل کے طیارے انخلا پر مجبور
دوسری طرف، اسرائیل نے قاہرہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ کارکنوں کو غزہ کی سرحد تک پہنچنے سے روکے۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کارکنوں کو "جہادی مظاہرین" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی سرحد کے قریب کارکنوں کی موجودگی "اسرائیلی فوجیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔" ایسے مظاہروں کی "اجازت نہیں دی جائے گی۔" مصری حکام فلسطینی حقوق کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ سرحدی علاقوں میں نقل و حرکت قومی سلامتی کے ضوابط کے مطابق ہونی چاہئے۔