دور حاضر میں تکنالوجی کے ارتقاء کے ساتھ ہی صحافت کے امکانات چاروں طرف پھیل گئے ہیں۔ یہ ایسا شعبہ ہے جو آج زندگی کے کم و بیش ہر شعبے پر حاوی ہے۔ عام آدمی پہلے اتنا باخبر نہیں تھا جتنا آج ہے۔
مائیک پر ایڈوکیٹ یاسین مومن، پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری، صوفیہ مومن، شاہد لطیف، عبدالعزیز انصاری۔ تصویر:آئی این این
دور حاضر میں تکنالوجی کے ارتقاء کے ساتھ ہی صحافت کے امکانات چاروں طرف پھیل گئے ہیں۔ یہ ایسا شعبہ ہے جو آج زندگی کے کم و بیش ہر شعبے پر حاوی ہے۔ عام آدمی پہلے اتنا باخبر نہیں تھا جتنا آج ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر صحافت ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس شعبے میں طلبہ کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ان طلبہ کو صحافت یا ابلاغیات کی مزید معلومات دینے کے مقصد سے یشونت راؤ چوہان مہاراشٹر، اوپن یونیورسٹی کے زیر انتظام جی ایم مومن ویمنس کالج اسٹڈی سینٹر نے سنیچر کو رئیس ہائی اسکول کے اردو بسیرا آڈیٹوریم میں اردو صحافت کے عنوان سے ایک معیاری اور بامقصد سیمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت ’’کے ایم ای سوسائٹی‘‘ کے نائب صدر ایڈوکیٹ یاسین مومن نے کی۔
ایڈوکیٹ یاسین مومن نے صدارتی تقریر میں ماضی کے کئی بڑے صحافیوں سے اپنے روابط پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ کتابوں سے دوستی کرلیں تو لکھنا بہت آسان ہوجائیگا۔ انہوں نے کہا کہ لکھنے کی مشق صحافی کو اچھا صحافی بناتی ہے جس کی رپورٹیں اور مضامین پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ ایڈوکیٹ یاسین مومن نے کہا کہ ’’چیلنجز کے باوجود مہاراشٹر میں اردو صحافت کا مستقبل روشن ہے۔‘‘ اس سمینار میں اسٹڈی سینٹر کے بی اے اور ایم اے اُردو کے طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس سے قبل صحافت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انقلاب اور تعلیمی انقلاب کے مدیر شاہد لطیف نے طلبہ کو صحافتی پیشے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس کے ذریعہ بھلائی کو عام کرنا، بُرائی کو روکنا نیز خدمت ِ خلق کے جذبے کو بروئے کار لانا ممکن ہی نہیں بلکہ آسان ہوجاتا ہے۔ انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ پڑھنے، سوچنے، غورکرنے اور لکھنے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ بقول شاہد لطیف، ہمارا مذہب ہمیں بہترین اُمت قرار دیتا ہے اور ہم سے نافع اور کارآمد بننے کی توقع کرتا ہے۔ اس کیلئے اتنا اختیار ضروری ہے کہ آپ کسی سے کچھ کہہ سکیں، اُسے سمجھا سکیں۔ صحافت آپ کو عوام تک پہنچنے اور کہنے سننے نیز سمجھنے اور سمجھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مہمان مقرر نے طلبہ کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔
رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری نے مہمان مقرر کے تعارف میں انقلا ب کے علاوہ خاص طور پر تعلیمی انقلاب کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح یہ ہفت روزہ اخبار طلبہ کی شخصیت سازی اور ذہن سازی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ پرنسپل ضیاء الرحمان نے اسٹڈی سینٹر کی کاوشوں کا بھی احاطہ کیا اور بتایا کہ کس طرح ہر سال سیکڑوں طلبہ اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ اسٹڈی سینٹر کے کوآرڈینیٹر عبدالعزیز انصاری نے سینٹر کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی کا یہ سینٹر طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے مہاراشٹر کا سب سے بڑا سینٹر ہے۔ ادارہ سے وابستہ صوفیہ مومن نے پروقار انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ سیمینار میں کے ایم ای سوسائٹی کے رکن مختار فرید، مشہور انشائیہ نگار محمد رفیع انصاری، سبطین کشیلکر، مومن ناظمہ، ڈاکٹر ابوسعد اعجاز ، خان ذاکر حسین، فہیم مومن اور دیگر معززین شریک رہے۔