اقتصادی ترقی کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ملک میں جون۲۰۲۵ء میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر ۵ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے
EPAPER
Updated: August 22, 2025, 11:03 AM IST | Gurbir Singh | New Delhi
اقتصادی ترقی کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ملک میں جون۲۰۲۵ء میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر ۵ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے
گربیر سنگھ
ہندوستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اقتصادی ترقی کے تمام تر دعوئوں کے باوجود بنیادی مسئلہ یعنی بے روزگاری ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کورونا کے بدترین سال ۲۱۔۲۰۲۰ء میں بے روزگاری کی شرح جہاں ۸؍ فیصد تک پہنچ گئی تھی وہیں ۲۴۔۲۰۲۳ء تک یہ نیچے آکر ۳ء۲؍ فیصد تک آ گئی۔ بظاہر ایسا لگنے لگا کہ ملک اس بحرانی کیفیت سے باہر نکل آیا ہے۔ لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ایسا صرف سرکاری اعداد و شمار کی حد تک سچ ہے۔ زمینی حقیقت بہت زیادہ تشویشناک ہے۔سرکاری پیریڈک لیبر فورس سروےکے مطابق جون ۲۰۲۵ء میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر ۵ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے جبکہ مئی میں یہ ۵ء۱؍ فیصد تھی۔
دوسری طرف، ایک آزاد تحقیقی ادارہ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی اپنی رپورٹ میں اس شرح کو ۷؍ فیصد بتا رہا ہے، جو سرکاری دعوئوں سے کہیں زیادہ ہے۔حکومتی اطمینان کے برخلاف روزگار کی تلاش میں دربدر پھرنے والے ہندوستانی نوجوانوں کی حالت کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ سال مہاراشٹر میں پولیس کی مختلف اسامیوں (کانسٹیبل، ڈرائیور، پولیس بینڈ اور جیل اسٹاف) کیلئے صرف ۱۷؍ ہزار اسامیاں نکالی گئی تھیں لیکن ان کے لئے ۱۷؍لاکھ ۷۶؍ ہزار درخواستیں موصول ہوگئیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان کس طرح کسی بھی طرح کی نوکری کے لئے بیتاب ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ مجموعی بے روزگاری کی شرح تو شاید ۵؍فیصد ہو لیکن اگر اسی کو تعلیمی بنیادوں پر دیکھا جائے تو گریجویٹس کی بے روزگاری ۱۳؍ فیصد تک پہنچ جاتی ہے جبکہ۱۵؍ سے۲۹؍سال کی عمر کے نوجوانوں میں یہ شرح ۱۰ء۲؍ فیصد ہے۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق ۱۵؍ سے ۲۴؍سال کے نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح۱۶؍ فیصد سے زیادہ ہے۔سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے حالیہ اعداد و شمار تو اور بھی خوفناک منظر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق ۲۰؍ سے ۲۴؍ سال کی عمر کے درمیان تقریباً ۴۴؍ فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے نوجوان گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے حامل ہیں، مگر انڈیا اسکلز رپورٹ ۲۰۲۵ء کے مطابق صرف ۸ء۵۴؍ فیصد گریجویٹس ہی ’روزگار کے قابل‘ تصور کئے جاتے ہیں۔ گویا ہمارا تعلیمی نظام بھی روزگار کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکا ہے۔ معروف ماہرین اقتصادیات سنتوش مہروترا اور جاجتی پریدا اپنی آنے والی کتاب’ انڈیا آئوٹ آف ورک‘ میں بتاتے ہیں کہ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء تک ملک میں روزگار کے سلسلے میں ایک مثبت ساختی تبدیلی دیکھی گئی تھی۔ زراعت میں کام کرنے والوں کی تعداد گھٹ رہی تھی جبکہ مینوفیکچرنگ اور تعمیراتی شعبوں میں روزگار بڑھ رہا تھا لیکن پچھلے۸؍ سے ۹؍ برسوں میں یہ رجحان مکمل طور پر الٹ گیا ہے۔ ۲۰۰۴ءسے ۲۰۱۲ء کے درمیان مینوفیکچرنگ کے شعبے میں روزگار کا حصہ ۱۰؍ فیصد سے بڑھ کر ۱۲ء۸؍ فیصد تک پہنچ گیا تھا لیکن ۲۰۲۴ء تک یہ گھٹ کر ۵ء۱۱؍ فیصد رہ گیا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اس شعبے میں روزگار کی حقیقی تعداد بھی کم ہوئی۔ دوسری طرف، زراعت میں ملازمتوں کا حصہ لگاتار گھٹ رہا ہے۔