Inquilab Logo

گیان واپی: مسجد کمیٹی نے وارانسی ضلعی عدالت کے فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا

Updated: February 01, 2024, 5:28 PM IST | varansi

گیان واپی مسجد کمیٹی نے وارانسی ضلعی عدالت کے فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ یاد رہے کہ بدھ کو وارانسی ضلعی عدالت کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی رات میں ہندو فریق نے تہہ خانے میں پوجا کی۔ خیال رہے کہ عدالت نے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کا فیصلہ سنایا تھا۔ مندر ٹرسٹ کے صدر نگیندر پانڈے نے کہا بدھ کی رات تقریباً ۳۱؍ سال بعد تہہ خانے کو کھولا گیا اور وہاں پوجا کی گئی ہے۔

Gyan Vapi Masjid. Photo: INN
گیان واپی مسجد۔تصویر: آئی این این

مسجد کمیٹی نے وارانسی ضلعی عدالت کے فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا
گیان واپی مسجد مینجمنٹ کمیٹی نے آج وارانسی ضلعی عدالت کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے وکیل ایس ایف اے نقوی نے کہا کہ مسجد کمیٹی نے فوری سماعت کی اپیل کی ہے۔خیال رہے کہ آج ہی سپریم کورٹ نے کمیٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ضلعی عدالت کے حکم کے بعدکاشی وشوناتھ ٹیمپل کے پجاری اور درخواست گزار، جنہوں نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے نانا نے تہہ خانے میں ۱۹۹۳ء تک پوجا کی تھی، نے مسجد میں پوجا کی۔

وارانسی ضلعی عدالت کے حکم کے چند گھنٹوں بعد ہندو فریق نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی۔ خیال رہے کہ بدھ کی صبح وارانسی عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت ہے جس کے بعد ہندو فریق نے اس حکم پر فوری عمل درآمد کیا۔ وارانسی عدالت کا یہ حکم گیان واپی معاملے میں اہم تبدیلی سمجھا جا رہا ہے۔ ٹیمپل ٹرسٹ کے صدر نگیندر پانڈے نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ وارانسی عدالت کے حکم کہ بعد بدھ کی رات تقریباً۱۰؍ بجکر ۳۰؍ منٹ پر تہہ خانے کو ۳۱؍ سال بعد کھولا گیا تھا۔ خیال رہے کہ اس تہہ خانے کا نام ویاس جی تہہ خانہ ہے۔ 
اس سے پوچھا گیا کہ کیا تہہ خانے میں پوجا کی اجازت ہے تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ پانڈے نے اس حوالے سے مزید کہا کہ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے ضلعی انتظامیہ نے تمام انتظامات کر دیئے ہیں۔ 
ضلعی مجسٹریٹ ایس راج لنگام نے کہا کہ میں نے عدالت کے حکم کی تکمیل کی ہے۔کچھ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ تہہ خانے کی صفائی کرنے کے بعد بھگوان لکشمی اور بھگوان گنیش کی پوجا کی گئی ہے۔ضلعی انتظامیہ کے حکام کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ بدھ کی رات تقریباً ۹؍ بجکر ۳۰؍ منٹ پر کاشی وشوناتھ ٹیمپل ٹرسٹ کے ممبران کو بلایا گیا تھااور نندی کے مجسمے کے پیچھے لگے بیریکیڈس ہٹائے گئے تھے۔ 
عدالت نے مقامی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ۷؍ دنوں کے اندر تہہ خانے میں پوجا کرنے کے انتظامات کرے۔ان میں کامپلیکس میں لوہے کے بیریکیڈس کے ساتھ ’’درست طریقے سے انتظامات سنبھالنا‘‘ شامل ہے۔ 
اس حوالے سے سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ وارانسی عدالت کے فیصلےمیں بی جے پی نے جتنی تیزی دکھائی ہے وہ قانونی تدابیر سے محفوظ رہنے کی کوشش ہے۔ خیال رہے کہ ضلعی عدالت کا یہ حکم مسجد کے اے ایس آئی سروے کی رپورٹ آنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ گیان واپی مسجد کے اے ایس آئی سروے کو مکمل کرنے کے بعد اے ایس آئی نے کافی دنوں بعد سائنسی رپورٹ پیش کی تھی جسے ضلعی عدالت نے دونوں فریقین کو سونپنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ بعد ازیں ضلعی عدالت نے رپورٹ کومد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ گیان واپی مسجد ٹیمپل پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کے اے ایس آئی سروے کرنا کا مقصد تھا کہ دیکھا جائے کہ مسجد کسی ٹیمپل پر بنائی گئی ہے یا نہیں۔ اے ایس آئی سروے کی سائنسی رپورٹ کے مطابق یہ مسجد اورنگ زیب کے دور حکومت میں ہندو ٹیمپل کی باقیات پر تعمیر کی گئی تھی۔ ہندو فریقین کے وکیل مدن موہن یادو کے مطابق ضلعی عدالت نے بدھ کو یہ حکم شیلیندرا کمار پاٹھک کی درخواست پر سنایا ہے، جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ناناسومناتھ ویاس نے مسجد میں دسمبر ۱۹۹۳ء تک پوجا کی تھی۔ پاٹھک کا یہ کہنا تھا کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے دور حکومت میں پوجا بند کر دی گئی تھی۔ 
سماعت کے دوران مسلم فریقین نے درخواست گزار کے دعوؤں پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تہہ خانے میں کوئی بھی بت نہیں تھا اس لئے یہ سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ وہاں ۱۹۹۳ء تک پوجا کی گئی ہے۔ 
واضح رہے کہ ۱۷؍ جنوری کو ضلعی عدالت نے حکم دیا تھا کہ مسجد کے تہہ خانے کو ضلعی مجسٹریٹ کے حوالے کیا جائےلیکن عدالت نے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں سنایا تھا۔ممتاز احمد، جو مسلم فریقین کی نمائندگی کر رہی ہیں، نے کہا تھا کہ آج ضلعی جج نے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کے حوالے سے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا ہے۔ ہم اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK