Updated: September 21, 2025, 4:07 PM IST
| Washington
۲۰؍ستمبر کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےایچ وَن بی ویزا فیس میں کئی گنا اضافہ کرکے اسے ایک لاکھ ڈالرس کرنے کا اعلان کیا تاہم اس فیصلے سے ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر پر کوئی خاص اثر ہونے کی امید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی آئی ٹی کمپنیاں طویل عرصے سے ایچ وَن بی ویزا پر اپنا انحصار مسلسل کم کر رہی ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر:آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایچ وَن بی ویزا فیس میں کئی گنا اضافہ کرکے اسے ایک لاکھ ڈالرس کرنے کا اعلان کیا تاہم اس فیصلے سے ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر پر کوئی خاص اثر ہونے کی امید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی آئی ٹی کمپنیاں طویل عرصے سے ایچ وَن بی ویزا پر اپنا انحصار کم کر رہی ہیں اور امریکی مارکیٹ میں مقامی ملازمتوں کو ترجیح دے رہی ہیں۔
ٹاٹا کنسلٹنسی سروسیز، ایچ سی ایل ٹیک، انفوسیس، وپرو اور ٹیک مہندرا جیسی کمپنیاں اب شمالی امریکہ میں ملازمین کی تعیناتی کے لیے ایچ وَن بی ویزا پر انحصار کرتی ہیں، جن کی تعداد ۲۰؍ فیصد سے ۵۰ فیصد تک ہے۔ متذکرہ ویزا امریکہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کو ایس ٹی ای ایم اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں غیر ملکی کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم ۲۰۱۵ء اور۲۰۲۳ء کے درمیان ہندوستان کی سب سے بڑی ۷؍ آئی ٹی کمپنیوں کے لیے منظور شدہ ایچ وَن بی درخواستوں کی تعداد۵۶؍ فیصد کم ہو کر۶۷۰۰؍ رہ گئی۔انفوسس اور ٹی سی ایس جیسی کمپنیاں اب اپنے۵۰؍فیصد سے زیادہ ملازمین کو مقامی طور پر امریکہ میں بھرتی کرتی ہیں، جس سے ویزا پر ان کا انحصار کم ہوتا ہے۔
کمپنیوں کی حکمت عملی
ٹی سی ایس اپنی آمدنی کا تقریباً نصف شمالی امریکہ سے پیدا کرتا ہے اور فی الحال اپنے۵۰؍ فیصد سے زیادہ امریکی ملازمین کو مقامی طور پر ملازمت دیتا ہے۔ ٹی سی ایس کے سی ای اوکے کرتی واسن نے اس سال جنوری میں بتایا تھا کہ وہ ہر سال اوسطاً۳؍ہزار سے ۴؍ہزار ایچ وَن بی ویزا حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجموعی طور پر یہ ایک چھوٹی تعداد ہے۔ اگر ایچ وَن بی ویزا کی دستیابی میں کمی آتی ہے تو ہم اس کی تلافی مقامی ملازمتوں کے ذریعے کر سکتے ہیں یا ہندوستان میں کام شفٹ کر سکتے ہیں۔‘‘ اسی طرح انفوسس نے اپنی امریکی افرادی قوت کا ۶۰؍ فیصد سے زیادہ مقامی طور پر بنایا ہے۔ کمپنی کے سی ایف او، جیش سنگراجکا نے بتایا کہ اس کے سائٹ پر موجودایچ وَن بی ملازمین کا تناسب مالی سال ۲۰۲۵ء میں گھٹ کر ۲۴؍فیصد رہ جائے گا جو کہ پہلے تقریباً ۳۰؍فیصد تھا۔