ایچ وَن بی ویزا فیس صرف نئی درخواستوں پر نافذ ہوگی۔ یو ایس سی آئی ایس نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم کے تحت یہ فیس صرف ان نئی درخواستوں پر لاگو ہوگی جو ابھی دائر کی گئی ہیں۔
EPAPER
Updated: September 21, 2025, 7:05 PM IST | Washington
ایچ وَن بی ویزا فیس صرف نئی درخواستوں پر نافذ ہوگی۔ یو ایس سی آئی ایس نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم کے تحت یہ فیس صرف ان نئی درخواستوں پر لاگو ہوگی جو ابھی دائر کی گئی ہیں۔
 
                                نئی ایچ وَن بی ویزا فیس پر ہنگامہ آرائی کے حوالے سے اب ایک اہم اپ ڈیٹ آ گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ ایک لاکھ ڈالرس (تقریباً۳ء۸؍ ملین روپے) کی اس بھاری فیس کا اطلاق موجودہ ایچ وَن بی ویزا ہولڈرس پر نہیں ہوگا، بلکہ صرف نئے درخواست دہندگان پر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیئے:ہندوستان-امریکہ تجارتی مذاکرات: پیوش گوئل امریکہ کا دورہ کریں گے
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسیز (یو ایس سی آئی ایس) نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم کے تحت یہ فیس صرف ان نئی درخواستوں پر لاگو ہوگی جو ابھی دائر کی گئی ہیں۔۲۱؍ ستمبر سے پہلے داخل کی گئی درخواستیں اس اصول سے متاثر نہیں ہوں گی۔
یو ایس سی آئی ایس  کے  ڈائریکٹر جوزف ایڈلو کے مطابق  یہ اصول ٹرمپ کے حکم کا حصہ ہے۔مخصوص غیر تارکین وطن کارکنوں کے داخلے پر پابندی اور صرف مستقبل کی نئی درخواستوں پر لاگو ہوگا۔ یہ موجودہ ویزا ہولڈرس یا پہلے سے منظور شدہ درخواستوں کو متاثر نہیں کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان ٹیلر راجرس نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکی کارکنوں کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس اقدام سے کمپنیوں کو سسٹم کے غلط استعمال سے روکنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے امریکی کمپنیوں کو بھی اعتماد ملے گا جو حقیقی معنوں میں ہنر مند پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ 
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ واضح طور پر ایک لاکھ ڈالرسفیس سالانہ فیس نہیں ہے بلکہ ایک بار کی فیس ہے۔ اس کا اطلاق تجدید یا موجودہ ویزا ہولڈرس پر نہیں ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے امریکہ میں کام کرنے والے ہزاروں ہندوستانی پیشہ وروں کے لیے راحت کی سانس آئی ہے۔ پہلے اس حکم نے ان میں کافی خوف اور الجھن پیدا کر دی تھی۔ امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے کہا کہ ’’کمپنیوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا کوئی ملازم اتنا قیمتی ہے کہ وہ حکومت کو سالانہ ایک لاکھ    ڈالر ادا کر سکے یا انہیں واپس بھیج کر کسی امریکی کی خدمات حاصل کی جائیں۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ اس اقدام کا مقصد صرف انتہائی ہنر مند اور واقعی ’قیمتی‘ افراد کو امریکہ میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔