Inquilab Logo

حماس اسرائیلی یرغمالوں کےعوض اپنے تمام قیدیوں کو رہا کرالینےکیلئے پُرعزم

Updated: October 08, 2023, 11:48 AM IST | Agency | Gaza

سینئر فوجی افسران سمیت بڑی تعداد میں اسرائیلیوں کی گرفتاری کا دعویٰ، تل ابیب کے شدید جوابی حملوں پر ’’ بدترین صورتحال ‘‘کیلئے تیار ہونے کا اعلان کیا، اہل ِ فلسطین کو آئندہ چند دنوں  میں سخت صورتحال کا سامنا۔

Hamas fighters can be seen celebrating after capturing an Israeli tank. Photo: AP/PTI
اسرائیلی ٹینک پر قبضہ کرنے کے بعد حماس کے جنگجو جشن مناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر:اے پی / پی ٹی آئی

اسرائیل پر سنیچر کو اچانک حملے اور بڑی تعداد میں  صہیونی فوج کے افسران  اور عام شہریوں کو قبضہ میں  لینے کے بعد حماس نے اِن قیدیوں  کے بدلے میں  اسرائیل کی جیلوں  سے اپنے تمام قیدیوں  کو رہا کرالینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’الاقصیٰ فلڈ‘‘کے جواب میں اسرائیلی فوج کی کارروائی اور ’’بدترین صورتحال‘‘کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ اُدھر غزہ اور مغربی کنارہ میں  آباد فلسطینی شہریوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ان کیلئے آنے والے دن اور خاص طور سے راتیں بہت ہی سخت ہوں گی۔ 
 قیدیوں کو رہا کرالینے کا عزم
حماس کے نائب سربراہ صالح  العروري نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’حماس کے جنگجوؤں  نے اسرائیلیوں  کو بڑی تعداد میں  قیدی بنایا ہے۔ ‘‘ انہوں  نےکہاکہ اس میں’’سینئر افسر‘‘ بھی شامل ہیں ۔ العروری نے اس کو حماس کی بڑی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ان اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں حماس آسانی سے اسرائیلی جیلوں میں  بند تمام فلسطینی قیدیوں  کو آزاد کرالیں گے۔ العروری کے مطابق’’ہم بڑی تعداد میں  اسرائیلی فوجیوں  کو مارنے اور قید کرنے میں  کامیاب ہوئے ہیں ۔ جنگ ابھی جاری ہے۔ میں  اپنے قیدیوں  کے تعلق سے کہنا چاہتا ہوں  کہ ان کی آزادی کے دن قریب آرہے ہیں ۔ ہمارے ہاتھ جو کچھ لگا ہے وہ ان کی آزادی کا پروانہ بنے گا۔‘‘اس کے ساتھ ہی انہوں  نے پُریقین لہجے میں  کہا کہ ’’جنگ جتنی طول پکڑے گی، اسرائیلی قیدیوں کی تعداد میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔‘‘
بدترین صورتحال کیلئے تیار
ان اندیشوں  کے بیچ کہ اسرائیل اس حملے سے بوکھلا جانے کے بعد غزہ پر شدید حملے کرکے حماس کی پوری قیادت کوختم کرنے کی کوشش کر سکتاہے اوراس کی سزا عام شہریوں  کو بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے، العروری نے کہا ہے کہ جنگجو گروپ ’’بدترین صورتحال‘‘ کیلئے تیار ہے۔‘‘ انہوں   نے کہا کہ ’’کچھ بھی ممکن ہے اور ہم ہر صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں  جس میں  فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی زمینی یلغار بھی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارہ پر حملے کی تیاری پہلے ہی کررہاتھا۔
عام شہریوں کو سخت صورتحال کاسامنا
اسرائیل پر حماس کے اب تک کے سب سے شدید اور اچانک راکٹ حملے کے بعد تل ابیب نے اعلان جنگ کردیا ہے۔ اس کے پیش نظر فلسطین کے عام شہریوں  کو سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خان یونس کیمپ میں  مقیم عمل ابو دقہ کے مطابق’’ہم خوفزدہ ہیں ۔‘‘ اہل غزہ کے مطابق حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی ’’غیر معمولی شدت‘‘ کی حامل تھی۔ تل ابیب کی فوجوں   نے اپنے حملے حماس کے ٹھکانوں  تک محدود نہیں  رکھے بلکہ غزہ کے مرکزی علاقوں میں عوامی مقامات اور رہائشی عمارتوں پر بھی بمباری کی۔ 
 سُپر مارکیٹ میں  بھیڑ
راملّہ جو فلسطین کے ان علاقوں  میں   شامل ہے جہاں  نسبتاً امن رہتاہے، میں جنگ چھڑتے ہی سپرمارکیٹ میں  شہریوں  کی بھیڑ نظر آئی۔ جنگ کے طول پکڑنے کےاندیشوں  کودیکھتےہوئے شہری عام ضرورت کی چیزیں  ابھی سے اکٹھا کرکے رکھ لینا چاہتے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ’’۲۰۰۲ء کی طرح ہوسکتا ہے کہ اسرائیلی فوجیں  پھر زمینی یلغار کردیں ،اس لئے ابھی سے تیاری کرلینا ضروری ہے۔‘‘

حماس نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کو آپریشن کی وجہ بتایا
 مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نےاسرائیل کے خلاف آپریشن الاقصیٰ فلڈ کی وجہ مسجد اقصیٰ کے خلاف دشمن کی جارحیت کو بتایا ہے۔انہوں  نے کہا کہ ’’گزشتہ چند دنوں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے جب ہزاروں فاشسٹ مجرم آباد کاروں نے اس کی بے حرمتی کی۔‘‘ا نہوں  نے کہا کہ ’’جو آپریشن غزہ سے شروع ہوا ہے وہ مغربی کنارے اور بیرون ملک اور ہر اس جگہ تک پھیلے گا جہاں ہمارے لوگ اور قوم موجود ہے۔‘‘ہانیہ نے ایک پریس بیان میں زور دے کر کہا کہ’’ فلسطینی مزاحمت ان تاریخی لمحات میں جرأت اور بہادری کی تاریخ رقم کر رہی ہے جس کا عنوان الاقصیٰ ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK