Inquilab Logo Happiest Places to Work

برطانیہ: سابق فوجیوں کا افغانستان اورعراق میں نہتے شہریوں کے قتل کا انکشاف

Updated: May 13, 2025, 10:10 PM IST | London

برطانوی فوجیوں کے سابق اہلکاروں نے عراق اور افغانستان میں غیر مسلح شہریوں کے ساتھ `جنگی جرائم کا انکشاف کیا۔۳۰؍ سے زائد سابق فوجیوں نے الزام لگایا ہے کہ برطانیہ کی خصوصی افواج کے اراکین نے غیر مسلح افراد کو ہتھکڑی لگے ہوئے یا سوتے میں اکثر قتل کیا۔

The killing of unarmed Iraqi civilians had become a daily routine for British soldiers. Photo: INN
نہتے عراقی شہریوں کا قتل برطانوی فوجیوں کا روزمرہ کا معمول بن گیا تھا۔ تصویر: آئی این این

برطانیہ کی خصوصی افواج کے۳۰؍ سے زائد سابق اراکین نے عراق اور افغانستان میں کارروائیوں کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے چشم دید واقعات بیان کیے ہیں، جن میں شہریوں، قیدیوں اور یہاں تک کہ بچوں کے قتل شامل ہیں۔ بی بی سی کے پروگرام پینوراما کو دیے گئے انٹرویو میں، سابق فوجیوں نے بتایا کہ اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) اور اسپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے اراکین اکثر غیر مسلح افراد کو ہتھکڑی لگے ہوئے یا سوتے میں قتل کر دیتے تھے۔ افغانستان میں تعینات ایک سابق ایس اے ایس سپاہی نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ’’فوجیوں نے ایک چھوٹے لڑکے کو ہتھکڑی لگائی اور گولی مار دی۔ وہ واضح طور پر ایک بچہ تھا، لڑنے کی عمر سے بھی دور تھا۔‘‘ 

بلجئیم: برسلز میں نیتن یاہوکی گرفتاری کے نفاذ پرحکومت کو مجبور کرنے کی قرارد پاس

ایک اور سابق فوجی نے کہا کہ قیدیوں کو مارنا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا۔اس نے مزید کہا کہ ’’ وہ کسی کو تلاش کرتے، ہتھکڑی لگاتے، پھر گولی مار دیتے، اور بعد میں ہتھکڑی کاٹ کر لاش پر ایک پستول رکھ دیتے۔‘‘  یہ الزامات ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط ہیں، جو اس وقت جاری عوامی تحقیقات کے تحت زیرِ غور تین سالہ مدت سے کہیں زیادہ طویل ہیں۔ پہلی بار رائل نیوی کے ایس بی ایس پر بھی غیر مسلح اور زخمی افراد کو قتل کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ ایک سابق ایس بی ایس سپاہی نے کچھ فوجیوں کے اقدامات کو ’’وحشیانہ‘‘ قرار دیا۔ اس نے کہا، ’’ وہ قانون سے بالاتر تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ انہیں کوئی چھو نہیں سکتا۔‘‘  فوجیوں کا کہنا ہے کہ شہریوں اور مشتبہ افراد کو اکثر اس وقت بھی مار دیا جاتا تھا جب کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
ایک سابق ایس اے ایس سپاہی نے کہا،’’اگر کوئی نشانہ پہلے دو یا تین بار فہرست میں آ چکا ہوتا، تو ہم انہیں مارنے کے ارادے سے جاتے۔ اکثر دستہ وہاں موجود تمام مردوں کو ہی مار دیتا تھا۔‘‘قتل ایک لت بن گیا تھا اور انہوں نے کچھ ساتھیوں کو ’’ نفسیاتی قاتل‘‘ قرار دیا۔ وہ اندر جاتے اور داخل ہوتے ہی وہاں سوئے ہوئے تمام افراد کو گولی مار دیتے۔‘‘ گواہوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجیوں نے غیر قانونی قتل کو چھپانے کے لیے ’’ڈراپ ہتھیار‘‘ استعمال کیے۔اور اپنے قتل کو جائز ٹھہرانے کیلئے اسے لاش کے پاس رکھ دیا کرتے تھے۔اور کارروائی کے بعد اعلی افسران کی مدد سے جعلی رپورٹ بنا لی جاتی۔  

یہ بھی پڑھئے: کانز کا آغاز: ہالی ووڈ کی اہم شخصیات نے غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والے کھلے خط پر دستخط کئے

سابق فوجی کے مطابق، یہ مسئلہ اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا جب یہ دستہ افغانستان گیا تھا، اور اعلیٰ کمانڈروں کو اس کی مکمل معلومات تھی۔بی بی سی پینوراما کے مطابق، سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے بار بار ان قتل کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ تاہم کیمرون کے ترجمان نے کہا کہ یہ شکایات نیٹو فوجیوں کے بارے میں تھیں،نہ کہ مخصوص برطانوی کارروائیوں کے بارے میں،اور ساتھ ہی کسی بھی پردہ پوشی سے انکار کیا۔  
برطانیہ کے وزارتِ دفاع نے کہا کہ محکمہ عوامی تحقیقات کی حمایت کرتا ہے اور تمام سابق فوجیوں کو معلومات فراہم کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن تحقیقات کے دائرہ کار میں آنے والے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سابق فوجی پراسیکیوٹر بروس ہنڈلر کے سی نے کہا کہ’’ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ان قتل کی خبرکس سطح تک پہنچی تھیں، آپ کو جاننا ہوگا کہ یہ سڑاند کس سطح تک پہنچی تھی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK