Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے یا بن سکتا ہے؟

Updated: June 04, 2025, 11:25 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ابھی ہم چوتھی بڑی معیشت بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں، بنے نہیں ہیں۔

NITI Aayog chief V. R. Subramanian. Photo: INN
نیتی آیوگ کے سربراہ وی آر سبرامنیم۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا میں اس بات کا شور ہے کہ ہندوستان، جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ ا س اعلان پر خود بخود سوال اٹھنے لگے کہ جب روزگار کم ہو رہے ہیں اور لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی آ رہی ہے تو پھر ملک کی معیشت کیسے ترقی کر رہی ہے؟ مختلف میڈیا رپورٹ میں ماہرین کی رائے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پورا کھیل ہندوستان دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن گئی ہے اور بن سکتی ہے کہ درمیان پھنسا ہوا ہے۔ 
 یاد رہے کہ کچھ دنوں قبل نیتی آیوگ کے سربراہ وی آر سبرامنیم کے بیان سے یہ موضوع سرخیوں میں آیا کہ ہندوستان معیشت کے معاملے میں جاپان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ حالانکہ فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندوستان اور جاپان میں اتنا فرق ہے کہ اسے زمین آسمان کے فرق سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اگر ماہرین کی رائے مانیں تو نیتی آیوگ کے سربراہ نے مذکورہ بیان وقت سے پہلے دیدیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کی رپورٹ کا حوالہ دیا تھا حالانکہ مذکورہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ دسمبر ۲۰۲۵ء تک ہندوستان دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ اس کی تصدیق نیتی آیوگ ہی کے ایک رکن اروند مانی کے ایک ویب سائٹ کو دیئے گئے بیان سے ہو جاتی ہے۔ ان کاکہنا تھا ’’ ہندوستان چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ ۲۰۲۵ء کے آخر تک ایسا ہو جائے گا۔ ‘‘ ان کے مطابق ’’اس کیلئے سال تمام ۱۲؍ مہینوں کے جی ڈی پی کے اعداد وشمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے فی الحال اس بات کو ایک پیش گوئی ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘‘ 

یہ بھی پڑھئے:سیم سنگ کی گلیکسی سیریز پھر سرفہرست، ٹاپ ۱۰؍ میں ۳؍ فون شامل

حالانکہ سوشل میڈیا پر حکومت کے حامی کچھ ماہرین نے اس دعوے کو درست بھی قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ہندوستان کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یورپ کے مقابلے تیزی سے ہو رہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کا ۲۰۲۵ء کے آخر تک ہندوستان کی جی ڈی پی ۱۹ء۴؍ تک ہو سکتی ہے ہے جبکہ جاپان کی معیشت کا تخمینہ ۱۸۶ء۴؍ ٹریلین ہے۔ یہ اندازے ڈالر میں ہیں اور فرق بہت معمولی ہے، لیکن اگر روپیہ اور جاپانی کرنسی کے مقابلے میں اتار چڑھاؤ آتا ہے تو یہ فرق بڑھتا رہے گا۔ ‘اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے ۲۰۲۵ء کیلئے ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو ۲ء۶؍ فیصد اور افراط زر کی شر ح ۴ء۲؍ فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ ہندوستان کی فی کس آمدنی ۲۸۰۰؍ ڈالر ہے جبکہ جاپان کی ۳۳؍ ہزار ۱۳۸؍ امریکی ڈالر ہے۔ اور اگر آپ امبانی اور اڈانی کی دولت کو ہٹا دیں تو یہہندوستان کی فی کس آمدنی ۲؍ ہزار ۶۶۲؍ ڈالر ہو جائے گی اور ۹۰؍ فیصد ہندوستانی ۲۵؍ ہزار روپے ماہانہ سے کم کماتے ہیں۔ ہندوستان کے امیر ترین ایک فیصد کے پاس ملک کی ۴۰؍ فیصد دولت ہے۔ ‘
 بہت سے ماہرین فی کس جی ڈی پی یعنی فی کس آمدنی کو کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ لگانے کیلئے ایک درست معیار مانتے ہیں اور اس سلسلے میں انڈیا دنیا میں ۱۴۰؍ ویں نمبر پر ہے۔ ان دلائل سے یہ انداز لگایا جا سکتا ہے کہ نیتی آیوگ کے سربراہ نے جلد بازی میں ہندوستان کو جاپان سے آگے لے جانے کی کوشش کی ہے۔ جس آئی ایم ایف کی رپورٹ کا انہوں نے حوالہ دیا ہے، اس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ ہندوستان دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے اور آپریشن سیندور کے پس منظر میں مودی حکومت کو جو خفت اٹھانی پڑی ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے نیتی آیوگ کے سربراہ نے یہ خوشگوار بیان دیا ہے۔ حالانکہ دسمبر ۲۰۲۵ء تک یہ صرف بیان ہی رہے گا۔ حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ اس سال کے اختتام پر ہی ہو سکے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK