الٰہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ کا یوگی حکومت سے سوال،سیاسی جماعتوں کوبھی آئندہ سماعت میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔
EPAPER
Updated: September 10, 2025, 10:05 AM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow
الٰہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ کا یوگی حکومت سے سوال،سیاسی جماعتوں کوبھی آئندہ سماعت میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ریاستی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ آخر ذات پر مبنی ریلیوں کو روکنے کے لیے ۱۱؍جولائی ۲۰۱۳ء کو جاری کئے گئے عدالت کے حکم پر کس طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ ایسی ریلیاں نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ دستور ہند کی روح کے بھی منافی ہیں۔
یہ سوال جسٹس راجن رائے اور جسٹس منجیو شکلا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اس وقت اٹھایا جب مقامی وکیل موتی لال یادو کی طرف سے دائر عوامی مفاد کی عرضی پر سماعت ہو رہی تھی۔ عرضی گزار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ریاست میں سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ذات پات کی بنیاد پر نکالی جانے والی ریلیوں پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ یہ عوام کے بیچ تفریق کو فروغ دیتی ہیں اور براہ راست سماجی تانے بانے کو کمزور کرتی ہیں۔سماعت کے دوران عدالت نے عرضی گزار کو ہدایت دی کہ وہ گزشتہ دس برسوں میں ریاست میں نکالی جانے والی ذات پات پر مبنی ریلیوں کا مکمل ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کریں تاکہ اس پر تفصیل سے غور کیا جا سکے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بغیر ٹھوس شواہد کے عدالت کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی، لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ریاستی حکومت نے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
اس معاملے میں عدالت نے پہلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ لیکن عدالت کے مطابق اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے سماعت میں حاضر ہو کر اپنا موقف پیش نہیں کیا ہے۔ عدالت نے اس رویے پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر آئندہ سماعت میں متعلقہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے جواب نہیں آیا تو عدالت یکطرفہ کارروائی پر مجبور ہو جائے گی۔اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے مرکزی حکومت کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذات پات پر مبنی ریلیوں کے معاملے میں وہ اپنا موقف پیش کرے۔ عدالت کے مطابق یہ مسئلہ صرف ریاستی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ قومی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عرضی گزار وکیل موتی لال یادو نے ’انقلاب‘ کو بتایا کہ ۱۱؍ جولائی ۲۰۱۳ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ذات پات پر مبنی سیاسی ریلیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایسی ریلیاں عوام کو ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں، سماجی بھید بھاؤ کو فروغ دیتی ہیں اور اس طرح نہ صرف معاشرتی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہیں بلکہ آئین میں درج بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کی بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ذات پات کے نام پر عوام کو جمع کرنا یا ان کے درمیان تفریق ڈالنا، جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔اس کے باوجود گزشتہ کئی برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسی ریلیوں کے انعقاد کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
عرضی گزار نے اپنی درخواست میں یہی دلیل دی ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مفاد کے لئے ذات پات کی بنیاد پر عوام کو منظم کر رہی ہیں اور حکومت اس پر روک لگانے میں ناکام رہی ہے۔عدالت نے واضح کیا کہ ریاستی حکومت کو یہ بتانا ہوگا کہ اس نے ۲۰۱۳ء کے حکم کی تعمیل کے لئےکیا اقدامات کئے، کتنی ریلیوں کو روکا گیا اور اگر ایسی ریلیوں کے انعقاد کی اجازت دی گئی تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟۔ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ بےحد حساس ہے کیونکہ ذات پات کی سیاست ملک میں عدم مساوات اور امتیازی سلوک کو مزید گہرا کرتی ہے۔ اس کیس کی اگلی سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ اس دوران ریاستی حکومت، مرکزی حکومت اور متعلقہ سیاسی جماعتیں اپنا موقف واضح کریں۔