• Wed, 24 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مَیں نے ایک قوم کا درد دفن کیا: غزہ کے گورکن یوسف ابو حاتب

Updated: December 23, 2025, 9:59 PM IST | Gaza

غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران ۶۵؍ سالہ فلسطینی گورکن یوسف ابو حاتب نے تقریباً ۱۸؍ ہزار لاشیں تنہا دفنائی ہیں۔ خان یونس کے قبرستانوں سے لے کر اسپتالوں ، شادی ہالوں اور صحنوں تک، وہ ایک ایسے المیے کے گواہ ہیں جو فلسطینی تاریخ کے بدترین سانحات میں شمار ہوتا ہے۔ وسائل کی شدید قلت، مسلسل بمباری اور بے نام لاشوں کے درمیان ابو حاتب آج بھی مردوں کو عزت دینے کی آخری کوشش کر رہے ہیں جبکہ جنگ بندی کے باوجود غزہ میں موت کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔

Yousef Abu Hatab. Photo: X
یوسف ابو حاتب۔ تصویر: ایکس

غزہ نسل کشی میں کم و بیش ۱۸؍ ہزار لاشوں کو دفن کرنے والے ۶۵؍  سالہ گورکن یوسف ابو حاتب روزانہ اپنی سرزمین کو چاک کرتے ہیں اور اس کے ایک باشندے کو مٹی کی نذر کردیتے ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جو پوری قوم کے زخموں سے بھری ہوئی ہے۔ جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں، وہ ایک کے بعد ایک لاشوں کو دفن کرتے رہے، حتیٰ کہ قبرستان میں مزید لاش دفنانے کی جگہ باقی نہ رہی۔ ابو حاتب ان ہزاروں فلسطینیوں میں سے نہیں جو اس جنگ میں شہید ہوئے بلکہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شہادت کے بعد کی خاموش چیخوں کو سنا۔ انہوں نے زیادہ تر بے نام لاشوں کو دفن کیا کیونکہ اسرائیلی بمباری نے جسموں کو اس حد تک مسخ کر دیا کہ ان کی پہچان ممکن نہ رہی۔ ان قبروں پر صرف مٹی تھی، نہ کتبے، نہ نام، نہ تاریخ۔
انہوں نے خبر رساں ادارے انادولو کو بتایا کہ ’’ہم نے ایسی لاشوں کو بھی دفن کیا جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اجتماعی قبریں، انفرادی قبریں، اسپتالوں کے اندر تدفین، ہر طرف موت کی چیخ اور بے تحاشا لاشیں۔ یہ ہولناک مناظر زندگی بھر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہیں گے۔ ‘‘ ابو حاتب یاد کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اسرائیلی بمباری کے بعد انہیں ایک ہی قبر میں ۱۵؍  لاشیں دفن کرنی پڑیں۔ ان کے بقول ۲۰۰۵ء میں غزہ پر ہوئی اسرائیلی جنگ ان کے کریئر کی ہولناک ترین جنگ تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اس جنگ کے دوران ۱۷؍ سے ۱۸؍ ہزار فلسطینیوں کی لاشوں کی تدفین کی نگرانی کی۔‘‘
واضح رہے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں تقریباً ۷۱؍ ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ جنگ غزہ کو کھنڈرات میں بدل چکی ہے۔ اگرچہ ۱۰؍ اکتوبر کو جنگ بندی نافذ ہوئی، لیکن غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اسرائیل نے اس کے بعد بھی حملے جاری رکھے ہیں۔ 

اجتماعی قبریں، بے بسی کی علامت
ابو حاتب روزانہ صبح ۶؍ بجے کام شروع کرتے ہیں اور اکثر سورج غروب ہونے کے بعد بھی قبریں کھودتے رہتے ہیں۔ کبھی قدیم اوزاروں سے، کبھی ننگے ہاتھوں سے۔ وہ بمباری کے ملبے سے پتھر اور ٹوٹے ہوئے ٹائل اکٹھے کر کے قبروں کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں، صرف اس لئے کہ مرنے والوں کو کچھ احترام نصیب ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صورتحال ناقابلِ برداشت ہے۔ ناکہ بندی کی وجہ سے نہ کفن ہے، نہ سیمنٹ، نہ اوزار۔‘‘
جنگ کے ابتدائی مہینوں میں وہ روزانہ ۵۰؍ سے ۱۰۰؍ لاشیں دفن کرتے تھے۔ فی الوقت تعداد کم ضرور ہوئی ہے، مگر قبرستان اب بھی نئی لاشیں نگل رہا ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ خان یونس کے ناصر اسپتال کے محاصرے کے دوران ایک عارضی قبر میں تقریباً ۵۵۰؍ لاشیں دفن کی گئیں۔ دو سالہ اسرائیلی حملوں کے دوران فلسطینیوں کو اپنے عزیزیوں کو محلوں، صحنوں، شادی ہالز اور کھیل کے میدانوں میں دفنانا پڑا۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی فوج نے ۶۰؍ میں سے ۴۰؍ قبرستان بری طرح تباہ کر دیئے اور ایک ہزار سے زائد لاشوں کی باقیات چرا لیں۔ مزید یہ کہ ۱۰؍ ہزار سے زائد لاشیں اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسپتالوں میں ادویات کا سنگین بحران، وزارتِ صحت کا ہنگامی انتباہ

جنازوں کی آوازیں جو نہیں تھمتیں
وسائل اور عملے کی کمی کے باعث ابو حاتب اکیلے ہی لاشوں کو غسل دیتے رہے، انہیں کفن پہنائے، اور تدفین اور دستاویزات کا کام انجام دیتے رہے۔ وہ اس امید پر یہ تمام چیزیں اپنے فون پر ریکارڈ کرتے ہیں کہ شاید یہ سب دنیا کبھی تودیکھے گی۔ ۱۹۸۸ء میں اور حالیہ جنگ میں دو بار زخمی ہونے والے ابو حاتب کہتے ہیں کہ ’’کبھی کبھی میں لاشوں کو صرف تھیلوں میں دفن کرتا ہوں، بغیر پتھروں یا سیمنٹ کے۔‘‘ جولائی کا مہینہ ان کیلئے سب سے زیادہ اذیت ناک تھا، جب شدید بمباری کے دوران انہیں ایک ہزار ۲۷۰؍ لاشیں دفن کرنے کیلئے نجی قبریں کھولنی پڑیں۔ وہ ایک گونگی عورت اور اس کے چار بچوں کی تدفین کو کبھی نہیں بھول پاتے۔انہیں کئی لاشیں گلیوں میں مسخ شدہ ملیں۔ ان کی شناخت نہیں تھیں اور بعض کو جانوروں نے نوچ کھسوٹ کر بری حالت میں چھوڑ دیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK