Updated: February 19, 2024, 7:46 PM IST
| Mumbai
آئی سی آئی سی آئی بینک کی سابق سی ای او چندہ کوچر اور ان کے شوہر دیپک کوچر کو دسمبر ۲۰۲۲ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں وینو گوپال دھوت کی زیر قیادت ویڈیو کان گروپ کو بینک کی جانب سے فراہم کردہ قرضوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم، بامبے ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کو طاقت کا غلط استعمال قرار دیا اور سی بی آئی پر برہمی کا اظہار کیا۔
چندا کوچر اور دیپک کوچر۔ تصویر: آئی این این
سی بی آئی کے ذریعے دسمبر۲۰۲۲ء میں آئی سی آئی سی آئی بینک کی سابق سی ای او چندہ کوچر اور ان کے شوہر دیپک کی گرفتاری کو ’ بغیر عقل کے عمل ‘سے تشبیہ دیتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ نے اسے طاقت کا غلط استعمال قرار دیتے ہوئے کمرہ عدالت میں عبوری ضمانت کی توثیق کی۔
واضح رہے کہ دونوں کو ۲۳؍ دسمبر ۲۰۲۲ء میں وینو گوپال دھوت کی زیر قیادت ویڈیو کان گروپ کو بینک کی جانب سے فراہم کردہ قرضوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس گرفتاری کو یہ دعوی ٰ کرتے ہوئے عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور انہیں ۹؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو بامبے ہائی کورٹ نےعبوری ضمانت دی تھی جس کی تصدیق ۶؍ فروری ۲۰۲۴ء کو ہوئی تھی۔
پیر کو دستیاب تفصیلی حکم نامے میں ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری تفتیش کےدوران دریافت ہونے والے کسی اضافی مواد کی بنیاد پر نہیں کی گئی بلکہ تفتیشی افسر کے علم میں وہی مواد موجود تھا جب انہیں ۲۰۲۲ء میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۱؍ اے کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس انوجا پربھو دیسائی اور این آر بورکر کی ڈیویژن بینچ نے کہا کہ اس طرح کے معمول کی گرفتاری بغیر سوچے سمجھے اور قانون کے احترام کے نقطہ نظر سے طاقت کے غلط استعمال کےمترادف ہے او ر سی آر پی سی کی دفعہ ۴۱؍ اےکےتقاضے کو پورا نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی بی آئی ایسے حالات یا معاون شواہد کی موجودگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے جس کی بنیاد پر گرفتاری کی فیصلہ لیا گیا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس کی عدم موجودگی میں یہ شق ڈیڈ لیٹر تک کم کر دی جاتی ہے اور گرفتاری کو غیر قانونی قرار دی جاتا ہے۔
سی آر پی سی کی دفعہ ۴۱؍ اے کے تحت ایک تفتیشی افسر کسی معاملے میں مشتبہ شخص کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ شخص عدالت میں پیش ہو کر نوٹس کی تعمیل کرتا ہے تو اس شخص کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا ئےگا جب تک کہ اس کی گرفتاری کی وجوہات درج نہ ہوں۔ اگر کسی شخص کو حراست میں لئے بغیر تفتیش کی جا سکتی ہے تو شق یہ ہے کہ معمول کی گرفتاری سے پرہیز کیا جائے۔
سی بی آئی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جوڑے نے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا تھا اور تفتیش کاروں کو سازش کا پتہ لگانے او ر آئی سی آئی سی آئی بینک کےکسی دوسرے شریک سازش کے ناموں کا پتہ لگانے کی ضرورت تھی اس لئے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کو چرنےسینئر وکیل امیت دیسائی کے توسط سے اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا اور دلیل دی تھی کہ انہوں نے سی بی آئی کی جانب سےانہیں جاری کردہ نوٹس کی تعمیل کی ہے اور وہ دوبارہ پوچھ گچھ کیلئے حاضر ہو ئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حق تلفی کو تحقیقاتی ایجنسی کے ساتھ عدم تعاون نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت نے اس اعتراض پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئےکہا کہ خاموش رہنے کے حق کے استعمال کو عدم تعاون کے مترادف نہیں کہاجا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس کی ابتدائی تفتیش ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۷ء تک ہوئی تھی اور ایف آئی آر ۲۰۱۹ء میں درج کی گئی تھی۔ جرم کی سنگینی کے باوجود رجسٹریشن کی تاریخ سے تین سال سے زیادہ عرصے تک درخواست گزاروں سےپوچھ گچھ نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں طلب کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی گرفتاری کیلئے کوئی نیا مواد پیش نہیں کیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وہاں تفتیشی ایجنسی کے پاس ایک ملزم سےپوچھ گچھ کرنے اور گرفتاری کے معاملے پر ذاتی اطمنان حاصل کرنے کا دائرہ اثر ہے۔ جو کہ عدالتی نقطہ نظر سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔
دریں اثنا عدالت نے چندا کوچر کے اس دعویٰ کو پھر مسترد کر دیا کہ ان کی گرفتاری بھی غیر قانونی ہے کیونکہ انہیں غروب آفتاب کے بعد گرفتار کیا گیا تھااور یہ کسی خاتون پولیس افسر نے نہیں کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اسے غروب آفتاب سے پہلے گرفتار کیا گیا تھا اور کیس ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ گرفتاری ایک خاتون پولیس افسر کی موجودگی میں ہوئی تھی اور اس سے سی آر پی سی کی دیگر دفعات کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔