• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مساجد اور درگاہوں کے سروے پر فوری روک

Updated: December 13, 2024, 11:13 AM IST | Agency/Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

تاحکم ثانی نئے مقدمات درج نہیں ہونگے، موجودہ معاملات پر کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا جائیگا، مرکز کو جواب دینے کیلئے ایک ماہ کی مہلت، عدالت کے حکم کا چوطرفہ خیر مقدم۔

The case of the historic Shahi Jama Masjid in Sambhal is still fresh, where the situation deteriorated after the survey order. Picture: INN
سنبھل کی تاریخی شاہی جامع مسجد کا معاملہ ابھی تازہ ہی ہے جہاں سروے کےحکم کے بعد حالات خراب ہو گئے تھے۔ تصویر: آئی این این

ملک میں مساجد کے سروے کے نام پرفتنہ وفساد پھیلانے،سنبھل شاہی جامع مسجد سانحہ ، اجمیر درگا ہ پر دعوے، گیان واپی مسجد پر دعویٰ ، متھرا شاہی عید گاہ پر دعویٰ ، عطاءاللہ مسجد کا معاملہ یا پھر بدایوں کی تاریخی مسجد کے معاملے  کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نہایت اہم فیصلے سنایا۔  اس فیصلہ میں تاحکم ثانی مساجد اور درگاہوں کے سروے پر  عدالت عظمیٰ نے روک لگادی ہے ۔ عدالت نے پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء پر سماعت مکمل ہونے تک ملک بھر کی تمام ذیلی عدالتوں کونئے معاملوں کو درج کرنے اور سروے کے احکامات جاری نہ کرنے کی بھی واضح ہدایت دی اور یہ وارننگ بھی دی کہ اس ہدایت کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس کی خصوصی بنچ
 سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اورجسٹس کے وی وشوناتھن کی خصوصی بنچ نے گیان واپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ، سنبھل جامع مسجد وغیرہ میں عدالتوں کو سروے کے احکامات سمیت موثر عبوری یا حتمی حکم جاری  نہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔بنچ نے کہا کہ چونکہ عبادتگاہ قانون کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ایسے میں تمام عدالتیں تاحکم ثانی نئے معاملوں کو درج نہیں کریں گی اور موجودہ معاملات پر کوئی کارروائی بھی نہیں کریں گی۔تاہم عدالت عظمیٰ نےان مقدمات کی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا جو اس وقت مساجد اوردرگاہوں کے خلاف زیر التوا ہیں لیکن انہیں احکامات دینے سے فی الحال روک دیا۔ عدالت نے اس معاملے میں مرکزی حکومت کو ۴؍ ہفتہ میں جوابی حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ مرکزی حکومت  کی رائے کے بغیر اس پر حتمی سماعت نہیں ہوسکتی۔
جسٹس وشوناتھن نے کیا کہا ؟
 جسٹس وشوناتھن نےاپنے اہم مشاہدہ میں کہاکہ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون۱۹۹۱ء کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیاتھااس کے باوجود غیر ضروری طور پرنچلی عدالتیں مقدمات کی سماعت کررہی ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ حالانکہ مخالف فریق نے سروے پر روک لگانے کے فیصلہ کی سختی سے مخالفت کی اور چیف جسٹس آف انڈیا پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس سنجیو کھنہ بری طرح ناراض ہو گئے اور انہوں نے برہمی بھرے لہجے میں کہا کہ اگر انہیں فیصلہ صادر کرنے نہیں دیا گیا تو وہ چیمبر میں جاکر فیصلہ دیں  گے  اور وہ فیصلہ فریق مخالف کو بہت بھاری بھی پڑسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کے دلائل
 خیال رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے دلائل پیش کئے۔انہوںنے استدلال کیا کہ عبادت گاہوں کے تحفظ قانون کی موجودگی میں نچلی عدالتیں مسلم عبادت گاہوں کے خلاف مقدمات پر سماعت کرکے سروے کا حکم دے رہی ہیں جس سے سنبھل جیسے واقعات ہورہے ہیںاور ملک کا امن وامان خراب ہو رہاہے۔انہوںنے مزید کہا کہ اس قانون کے دائرے سے صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیاتھا۔ دیگر عبادتگاہیں اس قانون کے دائرے میں ہیں۔ اس کے باوجود یہ شرانگیزی کی جارہی ہے اور مسلسل ہورہی ہے۔ انہوں نے مختلف عدالتوں میں تاریخی و مذہبی اہمیت کی حامل مسلم عبادت گاہوں کے خلاف ۱۸؍مقدمات کا حوالہ دیا۔ اس دوران سپریم کورٹ نے جمعیۃ علماء ہند کے دیگر وکیل ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کو نوڈل ایڈوکیٹ مقرر کیا۔
کس کس پر دعویٰ کیا گیا ہے؟
جن مساجد کے سروے کی اجازت دی گئی ان میں جامع مسجد( منگلور)،جامع مسجد شمسی، گیان واپی مسجد(بنارس)، متھرا شاہی عیدگاہ ، ٹیلے والی مسجد(لکھنؤ)، بھوج شالہ کمال مولیٰ مسجد (ایم پی)،قوت  الاسلام مسجد قطب مینار (دہلی)، شاہی جامع مسجد (سنبھل)، عطاء اللہ (اٹالہ)مسجد (جونپور) اوراجمیر شریف درگاہ  شامل ہیں۔
کون کون سے وکلاء پیش ہوئے
 جمعرات کو ہونے والی سماعت میںعدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن ، ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالہ، ایڈوکیٹ ورندا گروور ، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول ، ایڈوکیٹ صغیر اے خان،ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سواستک بنرجی، ایڈوکیٹ وکرم نارائن، ایڈوکیٹ عقیل خان، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ سیف ضیاء ، ایڈوکیٹ مجاہد احمد اور دیگر موجود تھے۔
مرکزی حکومت پر نظریں مرکوز
عبادتگاہوں کے تحفظ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ حتمی سماعت سے قبل مرکزی حکومت کی رائے طلب کرنا انتہائی اہم ہوگیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عدالت میں اپنا جواب داخل کرے۔ ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد کیس کے فیصلہ کے وقت آر ایس ایس سمیت حکومت کے اہم عہدیداروں نے مختلف طریقہ سے مسلمانوں کی اہم تنظیموں اور جماعتوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ یہ آخری تنازع ہے اور اس کے بعد ملک میں امن اور خوشحالی کا ماحول قائم ہوگا۔ اسی لئے اب سبھی کی نگاہیں مرکزی حکومت پر مرکوز ہیں کہ وہ کیا موقف اختیار کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ چار ہفتوں میں مرکز جواب داخل کرے اور تمام فریقین کو ان جوابات پر اپنے اعتراضات جمع کرنے کے  لئے وقت دیا جائے۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے تجویز دی کہ ایک پورٹل یا کوئی ایسا نظام ترتیب دیا جائے جہاں تمام جوابات آسانی سے دیکھے جا سکیں۔ اس پر سالیسٹر جنرل نے کہا کہ گوگل ڈرائیو لنک جیسا کوئی پلیٹ فارم استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے تمام فریقین کو مزید چار ہفتوں کا وقت دیا تاکہ وہ اپنے جوابات جمع کر سکیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک ہم اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں، ملک بھر میں کہیں بھی کوئی بھی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔ اس پر مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ جلد ہی اس معاملے میں جواب داخل کیا جائے گا۔  سپریم کورٹ نے کہا کہ بھوج شالہ، گیان واپی اور سنبھل جیسے جاری مقدمات کی سماعت جاری رہے گی لیکن عدالت چار ہفتوں تک ان پر کوئی حکم جاری نہیں کرے گی۔  دریں اثناء اس معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ممبئی کی رضا اکیڈمی نے بھی اس معاملے میں مداخلت کار کی حیثیت سے اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ اس کے لئے  رضا اکیڈمی کے سربراہ  محمد سعید نوری خصوصی طور پر اپنے وکلاء کی ٹیم کے ساتھ دہلی پہنچے اور سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ جمعیۃ علماء اور دیگر تنظیمیںاس معاملے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں اس لئے ہم نے انہیں حمایت دینےکے لئے مداخلت کار کی عرضی داخل کی جسے قبول کرلیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ  عدالت نے اس معاملے میںمداخلت کار کے طور پر شامل ہونے کے لئے عرضیاں قبول کرنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد دونوں جانب سے کچھ افراد اور تنظیمیں مداخلت کار بنی ہیں۔ دریں اثناء اس معاملے میںجمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے  ردعمل دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے ملک میں فرقہ پرستی اور بدامنی پھیلانے والوں پر روک لگے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم معاملہ کی حساسیت کے پیش نظرحتمی فیصلہ کی توقع کررہے تھے،لیکن یہ عبوری فیصلہ بھی انتہائی اہم ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کی آڑ میں وہاں جو کچھ کیا گیا،اس سے صاف ظاہر ہو چکا کہ مسجدوں اور درگاہوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کرکے اور ان کا سروے کرانے کی آڑ میں فرقہ پرست عناصر ملک میں بد امنی پھیلا کر صدیوں پرانے امن و اتحاد اور بھائی چارے کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ اسی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کوعبادتگاہوں کا تحفظ ایکٹ کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اور وہ اسے کسی نہ کسی طرح رد کرانے کی خطرناک سازش کررہے ہیں۔اس لئے ہم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔مولانا مدنی نے مزیدکہا کہ ہم نے بابری مسجد کے فیصلے کو دل پر بھاری پتھر رکھ کر اس امید کے ساتھ قبول کرلیا تھاکہ اسکے بعد  ملک میں کوئی مسجد مندرتنازع نہیں پیداہوگااورملک میں امن وامان اوربھائی چارہ کی فضاقائم ہوگی لیکن ہمارایہ یقین غلط ثابت ہوا۔ آج ایک بارپھر اسی طرح ملک کے حالات کو دھماکہ خیزبنادینے کی سازش ہورہی ہے۔انہوںنے نچلی عدالتوں کے رویہ پربھی مایوسی ظاہر کرتےہوئے کہا کہ اگر نچلی عدالتیں سوج بوجھ سے کام لے کر حکم جاری کرتیں توسنبھل میں پانچ بے گناہ نوجوانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ نہیں دھونا پڑتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK