قیمتوں میں اضافہ کے محاذ پر چاندی نے سونے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، سونا ۷۵؍ ہزار ۹۱۳؍ روپے سے بڑھ کر ایک لاکھ ۳۷؍ ہزار ۵۹۱؍ ہوا جبکہ چاندی ۸۵؍ہزار ۸۵۱؍ روپے فی کلوسے بڑھ کر۲؍ لاکھ ۲۸؍ ہزار روپے ہوگئی۔
سونا سال بھر میں ۸۰؍فیصد اور چاندی ۱۶۷؍ فیصد مہنگی ہوگئی۔ تصویر: آئی این این
عالمی سطح پر جاری جغرافیائی سیاسی اور تجارتی تناؤ کے دوران گزشتہ ایک سال میں سونے چاندی میں زبردست تیزی رہی ۔ ایک طرف جہاں دونوں قیمتی دھاتیں عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئیں، وہیں سرمایہ کاروں کو خوب فائدہ ہوا۔ ایم سی ایکس انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق، احمد آباد میں سونے کی قیمت۳۱؍ دسمبر۲۰۲۴ء کو ۷۵؍ہزار ۹۱۳؍ روپے فی ۱۰؍ گرام تھی جو ۲۶؍ دسمبر ۲۰۲۵ء کو بڑھ کر ایک لاکھ ۳۷؍ ہزار ۵۹۱؍ روپے پر پہنچ گئی۔ اس طرح، اس کی قیمت۸۱؍ فیصد سے زیادہ بڑھ گئی۔ سونے پر سرمایہ کاری سے سال بھر میں ۸۱ فیصد کا ریٹرن حاصل ہوا جبکہ شیئر مارکیٹ میں ریٹرن کا اوسط ۱۱؍ فیصد رہا۔ اس دوران چاندی بھی۸۵؍ہزار ۸۵۱؍ روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر۲؍ لاکھ ۲۸؍ ہزار ۹۴۸؍ روپے فی کلوگرام پر پہنچ گئی۔ اس کی قیمت ایک سال میں۱۶۷؍ فیصد بڑھ گئی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ سونے کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ عالمی واقعات ہیں۔ ایک طرف روس یوکرین جنگ اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں جاری جدوجہد کے باعث محفوظ سرمایہ کاری مانی جانے والی پیلی دھات کی مانگ بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ، تجارتی تناؤ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ سرمایہ کار ہی نہیں، مختلف ممالک کے مرکزی بینک بھی سونا خرید رہے ہیں۔
ایک طرف جہاں قدر میں سونے کی کھپت بڑھی ہے، وہیں حقیقی کھپت میں کمی آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس کی آسمان چھوتی قیمتیں ہیں جس سے یہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور چلا گیا ہے۔ آل انڈیا جیم اینڈ جیولری ڈومیسٹک کونسل (جی جے سی) نے سونے چاندی میں تیزی کیلئے عالمی عوامل کے ساتھ ملک میں شادی بیاہ اور تہواروں کی مانگ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بڑھتی قیمتوں کے درمیان ملک میں اس کی سرمایہ کاری کی مانگ بھی بنی ہوئی ہے۔ اس نے نئے سال میں بھی تیزی جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں سونا۶۰؍ فیصد سے زیادہ مہنگا ہوا ہے۔ کئی دہائیوں میں یہ سونے کی بہترین کارکردگی ہے۔ اس کے پیچھے بنیادی وجہ سرمایہ کاری کی مانگ ہے۔ انتہائی کشیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول اور کمزور امریکی ڈالر کی وجہ سے سرمایہ کار سونے میں پیسہ لگا رہے ہیں۔ ساتھ ہی مرکزی بینکوں کی جانب سے بھی اس کی طلب میں اضافے کا رجحان برقرار ہے۔