خوف، مذہب اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے بارے میں سیاسی بحث کے درمیان کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اتوار کو سوشل میڈیا پر ’ستیم، شیوم، سندرم‘ کے عنوان سے ایک مضمون شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے تعصب اور خوف سے پاک سچائی اور عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ جوڑنے کو ہی ہندو ہونے کا واحد راستہ قرار دیا ہے۔
راہل گاندھی۔ تصویر:آئی این این
خوف، مذہب اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے بارے میں سیاسی بحث کے درمیان کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اتوار کو سوشل میڈیا پر ’ستیم، شیوم، سندرم‘ کے عنوان سے ایک مضمون شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے تعصب اور خوف سے پاک سچائی اور عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ جوڑنے کو ہی ہندو ہونے کا واحد راستہ قرار دیا ہے۔ راہل گاندھی نے فلسفیانہ انداز میں لکھا کہ’’ ہندو ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کمزوروں کی حفاطت ہی ہندودھرم ہے اور ہندو اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ تشدد کا ذریعہ بنے ۔ایک ہندو دل کھول کر اپنے وجود اور اطراف کے ماحول کو شفقت اور وقار کے ساتھ قبول کرتا ہے۔زندگی امنگ،بھوک اورخوف کا ایک بحر بیکراں ہے اور ہم سب اس میں تیر رہے ہیں۔‘‘خوف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا’’وہ شخص جس میں اس سمندر کی گہرائی کو دیانتداری سے دیکھنے کی ہمت ہو وہ ’ہندو‘ ہے۔ زندگی کے اس سفر میں وہ خوف کی شکل میں سامنے آنے والے دشمن کو دوست بنانا سیکھتا ہے، خوف اس پر کبھی حاوی نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کا قریبی دوست بن کر اسے آگے کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہندو کی روح اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ اس کا خوف اس پر حاوی ہوجائے اور کسی بھی قسم کا غصہ، نفرت یا انتقام کا ذریعہ بنے۔‘‘
زندگی کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئےراہل گاندھی نے اپنے مضمون میں لکھاکہ ’’ذرا تصور کریں، زندگی محبت اور خوشی کا، بھوک اور خوف کا سمندر ہے اور ہم سب اس میں تیر رہے ہیں۔ اس کی خوبصورت اور خوفناک، طاقتور اور ہمیشہ بدلتی رہنے والی لہریں ہیں۔ اس کے درمیان ہم جینے کی کوشش کرتے ہیں، اس سمندر میں جہاں محبت، خوشی اور بے پناہ خوشی ہے، وہاں خوف بھی ہے، موت کا خوف، بھوک کا خوف، دکھ کا خوف، نفع و نقصان کا خوف، کھو جانے کا خوف، پیچھے رہ جانے کا خوف، زندگی اس سمندر میں اجتماعی اور مسلسل سفر کا نام ہے یہ بحر بیکراں اس لئے ہےکہ آج تک اس سمندر سے نہ کوئی بچ سکا ہے اور نہ ہی کوئی فرار ہونے کے قابل ہوا ہے۔‘‘کمزور طبقےیعنی او بی سی کی سیاست پر بحث کرتے ہوئےانہوں نے لکھا کہ ’’ہندواِزم کمزوروں کی مدد کرتا ہے اور ہر ایک کو اپنے اندر سمیٹتا ہے۔ زندگی کے اس سمندر آگے بڑھتا ہے اور وجود کیلئے جدوجہد کرنے والی تمام مخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، کمزوروں کی حفاظت اس کا دھرم ہے اور اس کا مذہب یہ ہے کہ وہ بے بس کی فریاد سنے۔ ایک ہندو جانتا ہے کہ زندگی کے مہا ساگر میں تیرنے کا سب کا اپنا اپنا طریقہ ہے اور سب کے اپنے اپنے راستے ہیں۔ سب کو اپنی راہ پر چلنے کا حق ہے۔ وہ سبھی راستوںسے محبت کرتا ہے، سب کا احترام کرتا ہے اوران کے وجود کو اپنا مان کرقبول کرتا ہے۔‘‘راہل کے مطابق’’ہندو جانتا ہے کہ دنیا کا تمام علم اجتماعی ہے اور یہ تمام لوگوں کی قوت ارادی اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف ایک شخص کی ملکیت نہیں ہے۔ وہ منکسرالمزاج ہے اور وجود کے اس سمندر میں بھٹکنے والے کسی بھی شخص سے سننے اور سیکھنے کیلئے تیار ہے۔‘‘