Updated: December 11, 2025, 6:03 PM IST
| Chennai
انڈیا بلاک کے کئی اراکینِ پارلیمان نے مدراس ہائی کورٹ کے جج جسٹس جی آر سوامی ناتھن پر ذات پات اور نظریاتی جانبداری کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے صدر اور چیف جسٹس کو الگ الگ خطوط بھیجے۔ ان خطوط کے بعد جج کے حالیہ فیصلوں اور اقدامات نے عدالتی غیر جانبداری اور شفافیت پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کے جج جسٹس جی آر سوامی نا تھن۔ تصویر: آئی این این
چار ماہ قبل تھروپرانکندرم تنازع سے پہلے، انڈیا بلاک کے رکنِ پارلیمان نے صدر دروپدی مرمو اور اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا بی آرگوئی کو الگ الگ مگر ایک جیسے خطوط لکھے، جن میں مدراس ہائی کورٹ کے جج جسٹس جی آر سوامی نا تھن کے طرزِ عمل پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ ۱۱؍اگست کی تاریخ والے ان خطوط میں الزام لگایا گیا کہ جج نے برہمن برادری سے تعلق رکھنے والے وکلاء اور ہندو دائیں بازو کی نظریاتی وابستگی رکھنے والوں کو ترجیحی سلوک دیا۔ یہ خط و کتابت اُس وقت سے پہلے کی ہے جب اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں اُنہیں ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ سے ہٹانے کیلئے تحریک پیش کرنے کی کوشش کی۔ اراکینِ پارلیمان نے الزام عائد کیا کہ جسٹس سوامی ناتھن کے اقدامات ’’ثابت شدہ بدسلوکی اور سنگین بے ضابطگی‘‘ کے مترادف ہیں، جو عدالتی غیر جانبداری، شفافیت اور عدلیہ کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک سنگل بنچ جج کی حیثیت سے اپنے دور میں وہ باقاعدگی سے چند مخصوص وکلاء خصوصاً برہمن برادری یا دائیں بازو سے وابستہ افراد کے مقدمات کی فہرست سازی اور سماعت کو ترجیح دیتے رہے۔ خط کے مطابق اس طرزِ عمل نے عدالتی کارروائیوں میں ذات پر مبنی ترجیح اور اختصاص کا تاثر پیدا کیا۔ نگرانی اُس وقت مزید سخت ہوگئی جب جج نے حال ہی میں مدورائی کے تھروپرانکندرم میں واقع سبرمنیا سوامی مندر کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ پہاڑی کی چوٹی پر موجود درگاہ کے نزدیک ستون (دیپتھون) پر کارتکئی دیپم کا دیا روشن کرائیں۔ اراکینِ پارلیمان نے دلیل دی کہ اُن کے کئی فیصلوں اور مشاہدات میں ’’دائیں بازو کی سیاسی فکر کی واضح نظریاتی جھلک‘‘ ملتی ہے۔ اگرچہ جج ذاتی نظریات رکھ سکتے ہیں، مگر اُن کا کہنا تھا کہ ایسے عقائد عدالتی استدلال پر اثرانداز نہیں ہونے چاہئیں، خصوصاً اُن معاملات میں جو بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق ہوں۔
خط میں متعدد مقدمات کا حوالہ بھی دیا گیا جن کے ذریعے، اُن کے مطابق، نظریاتی جانبداری جھلکتی ہے۔ ایک مثال کارور کے ایک مندر سے متعلق عرضداشت کی تھی جس میں ’اننتھانم‘ (بھکتوں میں مفت کھانا تقسیم کرنا) اور ’انگہ پردکشنم‘ (بھکتوں کے کھانے کے بعد بچی ہوئی کیلے کی پتیوں پر لوٹ پٹّی کرنا) کی اجازت مانگی گئی تھی۔ جج کے اُس فیصلے میں ان رسومات کی اجازت دی گئی، جو اراکینِ پارلیمان کے مطابق ایک پہلے کے ڈویژن بنچ کے اُس فیصلے سے متصادم تھا جس میں انہیں غیر انسانی قرار دیتے ہوئے پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے عدالتی غیر جانبداری پر عوام کا اعتماد مجروح کرتے ہیں اور اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ عدالتیں سیاسی یا سماجی تعصب سے متاثر ہو سکتی ہیں۔