جو بائیڈن نے اسے خطے میں امن واستحکام کی کوشش کیلئے ضروری قرار دیا، جاپان نے بین الاقوامی تاریخ میں نیا موڑ تو جنوبی کوریا نے اسےتاریخی قدم بتایا، چین نے خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کہا
EPAPER
Updated: August 20, 2023, 11:34 AM IST | Agency | Washington
جو بائیڈن نے اسے خطے میں امن واستحکام کی کوشش کیلئے ضروری قرار دیا، جاپان نے بین الاقوامی تاریخ میں نیا موڑ تو جنوبی کوریا نے اسےتاریخی قدم بتایا، چین نے خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کہا
امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سیکوریٹی اور اقتصادی تعلقات کےفروغ کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ میں سہ فریقی سربراہ کانفرنس میں ہوئے معاہدوں کوکیمپ ڈیوڈ پرنسپل کا نام دیا گیا۔ تینوں ممالک کے سربراہوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیاہے کہ ’’ہمارے سہ فریقی سیکوریٹی تعاون کا مقصد خطے میں امن اور استحکام میں اضافہ ہے اور یہ مقصد ہمیشہ رہے گا۔‘‘صدر بائیڈن نے کہا کہ خطرات سے نمٹنے کیلئے مشورے کیلئےتینوں ملکوں کے درمیان ایک ہاٹ لائن قائم کی جائے گی۔کانفرنس کے بعد صدر بائیڈن نے جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول اور جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کشیدا کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
جو بائیڈن نے جمعہ کو کیمپ ڈیوڈ میں جاپان، امریکہ اور جنوبی کوریا کی سہ فریقی سربراہ کانفرنس کا افتتاح کیا۔ انہوںنے اسےتینوں ملکوں کے درمیان پہلی انفرادی کانفرنس قرار دیا۔یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو ئی ہے جب بحر الکاہل کے علاقے میں شمالی کوریا سے مستقل جوہری خطرے اور چین کے اشتعال انگیز اقدامات پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صدر نے کہا، ’’ ہمارے ممالک مضبوط ہیں اور ہم ساتھ ہوں تو دنیا زیادہ محفوظ ہوگی۔‘‘جاپان اور جنوبی کوریا کےسربراہوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا’’میں آپ کی سیاسی جرأت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آپ دونوں کوآج یہاں لے آئی۔‘‘اس موقع پر یون نے کہا، ’’آج کے دن کو ایک ایسے تاریخی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب ہم نے سہ فریقی شراکت داری کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی اورعزائم کا اظہار کیا۔‘‘جاپانی وزیرِ اعظم کشیدا نے کہا، ’’یہ حقیقت کہ ہم تینوں لیڈر اس انداز میںیکجا ہوئے ہیں، میرے خیال میں یہ معنی رکھتی ہے۔ ہم آج ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ امریکہ جاپان اور جنوبی کوریا نے یہ عزم کیا ہے کہ بحر الکاہل میں کسی خطرے اور سیکوریٹی کے کسی بحران کی صورت میں تینوں ممالک ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کریں گے۔یہ معاہدہ اس یک روزہ کانفرنس میں زیر بحث متعدد دیگر مشترکہ کوششوں میں سے ایک ہے ۔صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا ہے کہ یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ تاریخی موقع ہے اور اس سے ہند و بحرالکاہل میں زیادہ امن اور خوشحالی کے حالات پیدا ہوں گے اور امریکہ مضبوط اور محفوظ تر ہو گا۔‘‘
یاد رہے کہ اس سہ فریقی سربراہ کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی چینی حکومت نے اس پر نکتہ چینی کی ۔ چین کا کہنا ہے کہ ’’ بین الاقوامی برادری خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون تضاد پیدا کر رہا ہے اور کشیدگیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ ون بن نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ایشیا۔ بحر الکاہل کے علاقے میں متعدد انفرادی اور مخصوص بلاک بنا کر کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں مقبولیت نہیں رکھتیں اور ان سے خطے کے ممالک میں یقینی طور پر چوکسی اور مخالفت پیدا ہوگی۔سلیون نے چینی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے بحرلکاہل کا نیٹو نہیں سمجھا جانا چاہئے۔یہ شراکت داری کسی کے خلاف نہیں ہے، اس کی ایک اہمیت ہے۔یہ ایک ایسے ہند و بحر الکاہل کا تصور ہے جو آزاد، کھلے پن کا حامل، محفوظ اور خوشحال ہو۔ یاد رہے کہ اس خطے میں چین کا اثر و رسوخ ہے جبکہ دوسری طرف شمالی کوریا بھی یہاں خم ٹھونکتا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں آگے مزید کشیدگی کا امکان ہے۔