زہریلی گیس کے حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ اس کا ذمہ دار شامی صدر بشار الاسد کو ٹھہراتے ہیں ۔مہلوکین کے رشتہ دار اب بھی انصاف کے منتظر
EPAPER
Updated: August 22, 2023, 12:17 PM IST | Agency | Idlib
زہریلی گیس کے حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ اس کا ذمہ دار شامی صدر بشار الاسد کو ٹھہراتے ہیں ۔مہلوکین کے رشتہ دار اب بھی انصاف کے منتظر
۲۱؍اگست۲۰۱۳ ءکے اوائل میں رونما ہونے والی یہ ہولناکی ایک دہائی بعد بھی بہت سے شامیوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ علاء مخزومی اب ۳۰؍ برس کی ہو چکی ہیں ۔ وہ اس خوفناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس وقت جاگ رہے تھے کیونکہ ان دنوں بہت گرمی تھی اور سویا نہیں جا رہا تھا۔ ہم اپنی چھت پر تھے اور رات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔‘‘رات کے تقریبا ڈھائی بجے تھے، جب غوطہ میں شامی تاریخ کا مہلک ترین کیمیائی حملہ ہوا۔ دارالحکومت دمشق کا یہ مضافاتی علاقہ اس وقت اپوزیشن کے کنٹرول میں تھا۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق علاء مخزومی نے بتایا کہ ’’جب ہم نے دھماکوں کی آواز سنی تو ہم نے سوچا کہ یہ معمول کی گولہ باری ہے۔‘‘ مخزومی کے شوہر ایک ڈاکٹر ہیں اور وہ فوری طور پر گھر سے یہ دیکھنے کیلئے نکلے کہ آیا کسی کو مدد کی ضرورت ہے۔مخزومی اس ناقابل فراموش رات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ لیکن پھر گلیوں سے پریشان کن چیخیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور ہمارا اپنا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ ہمارے اہل خانہ نے چہروں کو گیلے کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ہمیں خدشہ تھا کہ یہ کیمیائی حملہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا لیکن ہم کھڑکیوں کے قریب ہی رہے۔‘‘
شاید گیلے کپڑے اور ٹیشوز استعمال کرنے اور تہہ خانے میں پناہ نہ لینے کا فیصلہ کرنے سے ان کی زندگیاں بچ گئیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’عمومی طور پر لوگ معمول کی بمباری سے بچنےکیلئے نیچے تہہ خانوں میں جا کر چُھپ جاتے تھے لیکن اس بار تہہ خانے میں جانے والا ہر شخص مارا گیا۔‘‘
عبدالرحمان سیفیہ، جنہوں نے اس رات مشرقی غوطہ میں پیرامیڈیک کے طور پر کام کیا، نے بتایا کہ ’’بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کس ہتھیار سے مارا گیا ہے۔‘‘
مختلف تحقیقات اور ذرائع کے مطابق ۴۸۰؍تا ڈیڑھ ہزار افراد، جن میں سے بہت سے بچے تھے، نیند میں یا کسی اور جگہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔اقوام متحدہ کے مشن کی تحقیقات نے غوطہ پر حملے کے ایک ماہ بعد اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ایک کیمیائی حملہ تھا، جس میں سارین کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ جنگوں میں استعمال ہونے والے سب سے زیادہ زہریلے کیمیکلز میں سے ایک ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہم نے جو ماحولیاتی، کیمیائی اور طبی نمونے اکٹھے کئے ہیں ، وہ واضح اور قابلِ یقین ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹوں میں سارین کا استعمال کیا گیا تھا۔سارین ہوا سے بھاری ہوتی ہے اور نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہہ خانوں میں پناہ لینے والے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
لندن میں قائم ایس او اے ایس مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر لینا خطیب نے کا کہنا ہے کہ صدر اسد انتظار کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ انہیں امید ہے کہ دنیا آخر کار اس واقعے اور احتساب کو بھول جائے گی جبکہ عالمی برادری دوبارہ انہیں عملی طور پر شام کے جائز رہنما کے طور پر تسلیم کر لے گی۔
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز یا ای سی ایف آر کی مشرق وسطیٰ کی محقق کیلی پیٹیلو کا کہنا ہےکہ بین الاقوامی برادری کو شام کے ساتھ صرف سفارتی تعلقات ہی بحال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ احتساب کا عمل بھی متوازی طور پر ہونا چاہئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق احتساب کے بغیر یہ خطرہ برقرار رہے گا کہ اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔