یہی وہ مسجد ہے جہاں ابوبکر البغدادی نے خطبہ دیا تھا اور اپنی حکمرانی کا اعلان کیا تھا، جو بعد میں بند کر دی گئی تھی۔
EPAPER
Updated: September 02, 2025, 1:24 PM IST | Agency | Baghdad
یہی وہ مسجد ہے جہاں ابوبکر البغدادی نے خطبہ دیا تھا اور اپنی حکمرانی کا اعلان کیا تھا، جو بعد میں بند کر دی گئی تھی۔
عراق میں داعش کے بانی ابو بکر البغدادی کی وجہ سے شہرت پانے والی جامع مسجد النوری دوبارہ کھول دی گئی ہے عراق کے ویر رِاعظم محمد شیاع السودانی نے پیر کو موصل شہر کے وسط میں واقع جامع مسجد النوری اور اس کی مشہور الحدباء محراب کا دوبارہ افتتاح کیا، جو شہر کے تاریخی ورثے کا اہم حصہ اور داعش کے عروج اور زوال کی علامت قرار دی جاتی ہے۔
سودانی نے جامع کے داخلی راہ داریوں اور داخلی ہالز کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کی نئی تعمیر شدہ سہولیات کا معائنہ کیا۔ موصل کے قدیم علاقے میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے مذہبی رہنما، سیاستدان، علمی شخصیات، قبائلی عمائدین اور سرکردہ شریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔افتتاحی تقریب میں سیرین کیتھولک کے ’کلیسیا الطاہرہ‘ اور ’کلیسیا الساعہ‘ کے پادری بھی شریک تھے۔ یہ دونوں کلیسا ۲۰۱۴ء میں داعش کی کارروائیوں سے متاثر ہوئے تھے۔
جامع النوری کا دوسرا نام ’الجامع الكبير‘ بھی مشہور ہے۔یہ مسجد موصل کے نمایاں آثار میں شامل ہے۔ اس کی تعمیر ۱۱۷۲ء میں ہوئی اور اس کی مینار الحدباء کی بلندی ۵۵؍ میٹر ہے۔ ۲۰۱۴ء
۲۰۱۴ء کے وسط میں داعش کے لیڈر ابو بکر البغدادی نےیہاں اپنا پہلا اور واحد عوامی خطبہ دیا، جس میں اس نے ’خلافت‘کا اعلان کیا، جبکہ تنظیم نے موصل پر قبضہ کر رکھا تھا۔
۲۰۱۷ء کے وسط میں، عراق کی فورس کے ساتھ ہونے والی لڑائیوں کے دوران داعش نے جامع اور اس کی مینار کو تباہ کر دیا تھا۔جامع النوری کی دوبارہ تعمیر کا کام یونیسکو کی معاونت سے ہوا، جس میں متحدہ عرب امارات نے ۵۰؍ ملین ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی تھی۔افتتاحی تقریب میں وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے کہا کہ الحدباء مینار کی بحالی دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی فتح کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’موصل میں ولولہ اور حب الوطن دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ جامع مسجد النوری دوبارہ اس بات کی یادگار ہیں کہ عراق کے دشمن کسی بھی نقصان کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ سودانی نے کہا ’’ان کوششوں سے دہشت گردوں کی انسانیت اور اقدار کے خلاف کی گئی سازشوں کو ناکام بنایا گیا۔ یہ دونوں یادگاریں دشمنوں کو عراق کی مضبوطی اور تخریب کے خلاف عزم کی یاد دلاتی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء تک عراق اور شام میں داعش کا بڑا زور تھا جب اس تنظیم نے ان دونوں ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ البتہ شام میں بین الاقوامی افواج کی مدد سے اور عراق میں امریکہ اور ترکی کی فوجوں کی مدد سے انہیں شکست دی گئی۔ یاد رہے کہ داعش نے بعد میں اپنے ٹھکانے بدل دیئے اور افغانستان کا رخ کر لیا جہاں اب بھی وہ سرگرم ہے۔