غزہ نسل کشی میں مصروف اسرائیلی فوجیوں کی مائیں جنگ میں دوبارہ تعیناتی کی مخالف کر رہی ہیں، حکام کے دوبارہ جنگ میں شامل ہونے کے احکام کو کھلم کھلا مسترد کر رہی ہیں، اسرائیل کیلئے یہ ایک غیر معمولی بات ہے جہاں فوجی خدمات لازمی قرار دی گئی ہیں۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 7:03 PM IST | Telaviv
غزہ نسل کشی میں مصروف اسرائیلی فوجیوں کی مائیں جنگ میں دوبارہ تعیناتی کی مخالف کر رہی ہیں، حکام کے دوبارہ جنگ میں شامل ہونے کے احکام کو کھلم کھلا مسترد کر رہی ہیں، اسرائیل کیلئے یہ ایک غیر معمولی بات ہے جہاں فوجی خدمات لازمی قرار دی گئی ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنی حالیہ فوج کشی کیلئے ۶۰؍ ہزار ریزرو فوج کو طلب کیا ہے، جبکہ ان کے اہل خانہ نے حکومت کے اس حکم نامے کو مسترد کر دیا ہے،جس کیلئے وہ ممکنہ جیل بھی جانے کیلئے تیار ہیں۔ اگرچہ انکار نے ابھی تک اسرائیل کی فوجی مہم کو متاثر نہیں کیا ہے، لیکن یہ سخت گیر وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند وزراء کے خلاف بڑھتا ہوا غم و غصہ ظاہر کرتا ہے جو نسل کشی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو پر عموماً یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے نسل کشی کو طول دے رہے ہیں، بجائے اس کے کہ حماس سے معاہدہ کرکے یرغمالوں کو رہا کرایا جائے۔جن میں سے کئی یرغمالوں کو خود اسرائیل نے بمباری میں ہلاک کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں مزید۵۰؍ فلسطینی شہید
سابق حفاظتی اہلکاروں نے خبر دار کیا ہے کہ یہ حملے فوجیوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، ساتھ ہی غزہ کا انسانی بحران اسرائیل کے دنیا میں الگ تھلگ ہونے کا سبب بھی بن رہا ہے۔واضح رہے کہ فوجیوں کو خدمات سے انکار کرنے کی ترغیب دینے والا ایک گروپ ایسی ماؤں پر مشتمل ہے جو خوفزدہ ہیں کہ ان کے بیٹے بیکار ہلاک ہو جائیں گے۔نوریت فیلشینتھل برگر، جن کے سب سے چھوٹے بیٹے کی دوبارہ تعیناتی ہونی ہے، نے کہا، ’’میں سوچتی رہی کہ کسی طرح اس کی ٹانگ توڑ دوں، بازو توڑ دوں، اسے کسی طرح زخمی کر دوں تاکہ وہ واپس نہ جا سکے۔‘‘۲۸؍ سالہ میڈک اوشالوم زوہر سال نے کہا کہ بہت سے فوجی نسل کشی سے تھک چکے ہیں اور اپنے مشن کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اس گروپ کے رکن میکس کریش نے کہا کہ یہ جنگ اسرائیلی معاشرے کے تانے بانے کو تباہ کر چکی ہے۔
فوج نے کہا، ریزرو فوجیوں کا کردار مشن کی کامیابی اور ملک کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، اس نے غیر حاضری یا انکار کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے۔واضح رہے کہ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے اگست کے آخر میں کیے گئے ایک جائزے میں پایا گیا کہ دو تہائی اسرائیلی، بشمول۶۰؍ فیصد اسرائیلی یہودی، ایسے معاہدے کے حق میں ہیں جس میں قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور غزہ سے مکمل انخلاء شامل ہو۔حماس نے طویل عرصے سے ایسی شرائط کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن نیتن یاہو امن مذاکرات کو ناکام کر رہے ہیں، مذاکرات کاروں کو ہلاک کر رہے ہیں، اور غزہ پر قبضہ کرتے ہوئے اس کی پوری آبادی کو بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مائیراو زونزین نے کہا، ’’فوج، اور اس میں خدمات انجام دینا، اب بھی مقدس سمجھا جاتا ہے۔لیکن گہرے تقسیم شدہ ملک میں فوجیوں کو لڑائی جاری رکھنے پر مجبور کرنے کا اسرائیل کی صلاحیتوں پر دیرپا اثر ہو سکتا ہے۔‘‘