Updated: February 23, 2024, 4:41 PM IST
| Jerusalem
اسرائیلی کابینہ میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتین یاہو نے اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے بعد کے حالات کے پیش نظر تفصیلی منصوبہ منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے جس کے تحت جنگ ختم ہونے کے بعد غیر فوجی غزہ کی پٹی میں اسرائیل حفاظتی انتظامات سنبھالے گا اور شہری امور میں اہم کردار ادا کرے گا۔ منصوبے میں جنگ کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوج کو کسی بھی حفاظتی خطرہ کوناکام بنانے کیلئے کارروائی کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہےکہ اسرائیل غزہ کے اندر بفر زون قائم کرے گا۔
رفح میں فلسطینی بچےغذا کیلئے قطارمیں کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی
اسرائیلی کابینہ میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتین یاہو نے اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے بعد کے حالات کے پیش نظر تفصیلی منصوبہ منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے جس کے تحت جنگ ختم ہونے کے بعد غیر فوجی غزہ کی پٹی میں اسرائیل حفاظتی انتظامات سنبھالے گا اور شہری امور میں اہم کردار ادا کرے گا۔تفصیلات کے فقدان کےباوجود یہ منصوبہ پہلی بار جنگ کے بعد کے حالات کے تعلق سے باضابطہ نظریہ پیش کرتا ہے۔غزہ کے انتظامی امور میں اسرائیل کے مؤثر کردار پر نتین یاہو کا اصرار ریاستی حیثیت کے پیش خیمہ کےطور پر غزہ اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے پر خود مختار فلسطینی حکومت کے امریکی تجاویز کے خلاف ہے۔نتین یاہوکےدفتر سےشائع کردہ منصوبہ جمعرات کو دیر گئے کابینہ کےوزراء کو پیش کیا گیاتھا۔اس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کیلئے پر عزم ہےجس نے ۲۰۰۷ءمیں غزہ پٹی پر حکومت حاصل کی تھی۔انتخابی نتائج سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ فلسطینی عوام حماس کی حمایت نہیں کرتے لیکن اس تنظیم کی معاشرے میں جڑیں کافی گہری ہیںجبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا حماس کو ختم کرنے کےمنصوبے کا کامیاب ہونا نا ممکن ہے۔ اس منصوبے میں جنگ کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوج کو کسی بھی حفاظتی خطرہ کوناکام بنانے کیلئے کارروائی کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہےکہ اسرائیل غزہ کے اندر ایک بفر زون قائم کرے گا۔حا لانکہ یہ امریکی اعتراض کا سبب بن سکتا ہے۔
اس منصوبے میں غزہ پر مقامی حکام کے تسلط کا بھی تصور موجود ہے جس کے مطابق حکومت میں دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کا عمل دخل نہیں ہوگا اور نہ ہی ان سے کسی طرح کی مالی مدد حاصل کر سکیں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی بھی فلسطینی اس طرح کے ذیلی ٹھیکیدار کا کردار ادا کرنے پر راضی ہوگایا نہیں؟گزشتہ دہائیوں کے دوران اسرائیل نے کئی مرتبہ مقامی طور پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر نے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا کرنے میں ہر بار ناکام رہا ہے۔