Updated: January 12, 2024, 8:45 PM IST
| Nairobi
بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفم/آکسفیم نے بتایا کہ ۲۱؍ ویں صدی میں ہونے والے تمام مسلح تنازعات میں اسرائیل حماس تنازع خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہاں یومیہ اوسطاً سب سے زیادہ اموات ہورہی ہیں۔ اسرائیلی جارحیت برقرار ہے جبکہ غزہ کسی بھی ذی روح کیلئے اب محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ حالات مزید خراب ہونے سے پہلے جنگ بندی ضروری ہے۔
غزہ کا ایک ہولناک منظر۔ تصویر: آئی این این
آکسفم(Oxfam) نے آج کہا کہ اسرائیلی فوج روزانہ اوسطاً ۲۵۰؍ افراد کی شرح سے فلسطینیوں کا قتل کر رہی ہے جو حالیہ برسوں کے کسی بھی دوسرے بڑے تنازع میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ادارے کی مشرق وسطیٰ کی ڈائریکٹر سیلی ابی خلیل نے کہا ہے کہ ’’اسرائیل، غزہ پر جس جارحیت کا مظاہرہ کررہا ہے، وہ تشویشناک ہے۔ اس جنگ کو ۱۰۰؍ دن پورے ہونے والے ہیں مگر غزہ کے لوگ کسی جہنم میں رہ رہے ہیں۔ یہ افراد اپنے ہی علاقے میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور پوری آبادی کو قحط کا خطرہ ہے۔یہ ناقابل تصور ہے کہ بین الاقوامی برادری جنگ بندی نہیں کرواپارہی ہے اور ۲۱؍ ویں صدی میں ہونے والے تنازعات میں سے ایک جس میں یومیہ ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔‘‘
عوامی سطح پر دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر آکسفم نے اندازہ لگایا کہ غزہ میں روزانہ ہونے والی اوسط اموات کی تعداد کسی بھی حالیہ بڑے مسلح تصادم سے نمایاں طور پر سب سے زیادہ ہے، بشمول شام (۹۶؍ اموات فی دن)، سوڈان (۵۱؍ اموات فی دن) عراق (۵۰؍ اموات فی دن)، یوکرین (۴۳؍ اموات فی دن)، افغانستان (۲۳؍ اموات فی دن) اور یمن(۱۵؍ اموات فی دن) ۔
امدادی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل بمباری کی وجہ سے لوگ چھوٹے علاقوں میں پناہ لینے کیلئے مجبور ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ان مقامات سے بھاگنے پر مجبور ہیں جن کے بارے میں پہلے بتایا گیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں، لیکن غزہ میں کہیں بھی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ افراد(غزہ کی نصف سے زائد آبادی) مصر کی سرحد پر واقع رفح میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔ رفح میں آکسفم کے عملے نے بتایا ہے کہ یہاں موجود لوگوں کی تعداد کے پیش نظر بہت کم امداد ہے۔ یہ بحران اسرائیل کی طرف سے امداد کے داخلے پر پابندیوں، سرحدوں کو بند کرنے، محاصرہ کرنے اور بلا روک ٹوک رسائی سے انکار سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ غزہ میں فی الحال جتنی امداد پہنچ رہی ہے، وہ صرف ۱۰؍ فیصد ہے، یعنی سمندر میں چند قطروں کی طرح۔
آکسفم بھوک اور بیماری سے براہ راست جانی نقصان کے علاوہ زندگی کیلئے بڑے خطرے سے بھی خبردار کر رہا ہے۔ کمبل کی کمی، حرارتی آلات کیلئے ایندھن اور گرم پانی کی کمی کے ساتھ سرد اور گیلے موسم کا آغاز صورتحال کو مزید نازک بنا رہا ہے۔ آکسفم کی شراکت دار تنظیموں میں سے ایک، فلسطینی ایگریکلچرل ریلیف کمیٹی (پی اے آر سی) نے خیموں میں رہنے والوں کی صورت حال کو اس سے بھی بدتر قرار دیا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، بارش میں عارضی پناہ گاہیں اسرائیلی بموں نے اڑا دی ہیں اور لوگ مایوس ہیں۔
غزہ میں معتز نامی ایک انجینئر جو اپنے خاندان کے ساتھ المواسی میں بے گھر ہو گیا ہے، نے کہا کہ ’’خیمے کے چاروں طرف بارش ہو رہی تھی۔ ہمیں بارش سے بچنے کیلئے آٹے کے تھیلے پر سونا پڑتا تھا۔ میری بیوی اور میری تین بیٹیاں رات کو ایک کمبل استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘
اس ہفتے کے شروع میں جبالیہ میں ایک کیمپ سیوریج سے بھر گیا تھا جب پائپ لائنوں اور ایک پمپنگ اسٹیشن کو اسرائیلی فضائی حملوں سے نقصان پہنچا تھا۔ پینے کے صاف پانی اور صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونا صحت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اسہال کے معاملات گزشتہ سال کے مقابلے میں ۴۰؍ گنا زیادہ ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ کہیں زیادہ ہیں۔
سیلی ابی خلیل نے کہا کہ ’’جبکہ بڑے پیمانے پر مظالم جاری ہیں، جانوں کا ضیاع جاری ہے اور اہم سامان نہیں پہنچ سکتا۔ اسرائیل کی غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی زندگی بچانے والی امداد کو محدود کر رہی ہے، بشمول خوراک، طبی سامان اور پانی اور صفائی کی سہولیات۔ خوفناک ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، بہت سے لوگ بھوک، بیماریوں اور سردی سے مر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر بچوں، حاملہ خواتین اور موجودہ طبی حالات میں مبتلا افراد کیلئے تشویشناک ہے۔خونریزی کو روکنے اور مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کا واحد راستہ فوری جنگ بندی، یرغمالوں کی رہائی اور اہم امدادی سامان کو اندر جانے کی اجازت ہے۔‘‘