Inquilab Logo

’’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، جانوروں کا چارا بھی ختم ہوچکا‘‘

Updated: February 27, 2024, 11:32 AM IST | Agency | Gaza

شمالی غزہ کے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ۔ عالمی ادارہ خوراک کے اندازے کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی خوراک سے محروم ہوچکی ہے۔

People are waiting for humanitarian aid on the shores of Gaza City. Photo: AP/PTI
غزہ شہر کےساحل پرلوگ انسانی امداد کا انتظار کررہے ہیں۔ تصویر: اے پی / پی ٹی آئی

 غزہ پراسرائیلی جنگ۱۴۳؍ ویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔ اس دوران انسانی بحران تیزی سے اور خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں عالمی ادارہ خوراک کے اندازے کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی خوراک سے محروم ہوچکی ہے اوران کے پاس کھانے کو کچھ نہیں جبکہ ۹۰؍فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اگرچہ غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں اشیائے خوردونوش، صاف پانی اور طبی خدمات کی کمی ہے مگر شمالی غزہ کے عوام بدترین فاقہ کشی کی زندگی گزار رہےہیں۔ 
 تقریباً ۸؍ لاکھ فلسطینیوں کو کوئی امداد نہیں مل رہی اور انہیں قحط کا سامنا ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے زندہ رہنے کیلئے جانوروں کے چارے کو خوراک کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے مگر اب وہ چارا بھی ختم ہوچکا ہے۔ غزہ کے شہری محمد الغول نے اپنے چہرے پر تھکن کے آثار کے ساتھ کہا کہ ’’ہم تھک چکے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے جسموں پر صاف نظر آرہا ہے۔ ہمارے پاس اناج ختم ہو گیا، ہمارے پاس آٹا ختم ہو گیا، ہمارے پاس چاول ختم ہو گئے اور جانوروں کے چارے تک کچھ نہیں بچا۔ ‘‘انہوں نے مایوسی کے عالم میں پوچھاکہ ’’ہم قتل کے ان تمام طریقوں کے سامنے کیا کریں جو ہمارے خلاف رائج ہیں، قتل، بھوک، تباہی، محاصرہ اور سردی؟ یہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کا ہم شمالی علاقوں میں سامنا کر رہے ہیں۔ ‘‘
 غزہ شہر کے رہنے والے ابو علاء نے بھی کچھ ایسے ہی تاثرات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ کھانے کیلئے کچھ نہیں بچا، ہم بھوک پر صبر کر سکتے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں کو کیا کہیں جو دو دو دن کچھ نہیں کھا سکتے۔ دو دن بعد بھی کہیں ایک وقت کا کھانا یا جانوروں کا چارا دستیاب ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ہمیں خوراک چاہئے‘‘
 شمالی غزہ سےتعلق رکھنے والی ایمان عبید نے کہا کہ ’’زندگی اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ ہمارے پاس اب آٹا یا کھانا نہیں ہے اور ہم اسے پکانے اور اپنے بچوں کو کھلانے کیلئے چارا پیس کر کھاتے ہیں۔ ہم تھک چکے ہیں۔ یہاں تک کہ چاول کی قیمت، جو ہم ایک طویل عرصے تک کھاتے تھے، اب جنگ سے پہلے کے مقابلے میں ۵؍ گنا بڑھ چکی ہے۔ اب ہم اسے خریدنے کے قابل نہیں رہے اور گندم کا آٹا بھی غائب ہے۔ جو کے آٹے کی قیمت بڑھ گئی ہے حالانکہ اس کا ذائقہ خراب ہے۔ اب ہم وہ کھا رہے ہیں جو جانور نہیں کھاتے‘‘۔ 
  احمد ابو عودہ نامی بچے کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی خواہش دنیا کے باقی بچوں کی طرح کھانا کھانا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’میرے گردے بیمار ہیں اور مجھے خوراک اور علاج کی ضرورت ہے، کچھ بھی نہیں ہے، میں بھوک سے نہیں مرنا چاہتا، دن گزر جاتے ہیں اور میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتا ہوں۔ میں تھک گیا ہوں، ہم کھانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’غزہ میں قحط تیزی سے پھیل رہا‘‘
 غزہ میں سرکاری میڈیا آفس نے خبردار کیا تھا کہ بالعموم پوری غزہ کی پٹی بالخصوص شمالی غزہ کی پٹی میں قحط تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے جس سے لاکھوں بچوں اور خواتین کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ 
 غزہ میں فلسطینی ہلال احمر کے ترجمان راید نمس نے تصدیق کی ہے کہ بھوک اور خوراک تک رسائی کی کمی کے نتیجے میں بچوں، بوڑھوں اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد میں بڑی تعداد میں اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK