• Mon, 29 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل: اذان سے یہودی ’پریشان‘ ہوتے ہیں، پابندی پر متنازع بل

Updated: December 29, 2025, 7:04 PM IST | Tal Aviv

اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر کی جماعت کی جانب سے اذان کو ریاستی اجازت سے مشروط کرنے کی تجویز نے شدید تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ فلسطینی شہری اور انسانی حقوق کے کارکن اسے مذہبی آزادی اور شناخت پر حملہ قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت اسے شور اور صحتِ عامہ کا مسئلہ بتا رہی ہے۔ یہ بل اسرائیل میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق پر نئی بحث چھیڑنے کا سبب بن گیا ہے۔

Itmar bin Gvir, with other Jews in the compound of Al-Aqsa Mosque. Photo: INN
اتمار بن گویر، دیگر یہودیوں کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں۔تصویر: آئی این این

اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اتمار بن گویر کی جماعت جیوش پاور پارٹی نے مساجد میں اذان کو محدود کرنے کیلئے نئی قانون سازی پر کام شروع کر دیا ہے۔ اتوار کو جاری بیان میں جماعت نے کہا کہ وہ ایک ایسا بل تیار کر رہی ہے جس کے تحت اذان صرف اسی صورت میں دی جا سکے گی جب اسے ریاست کی جانب سے باضابطہ اجازت حاصل ہو۔ پارٹی کے مطابق، اجازت نامہ سرکاری حکام کی جانب سے طے کردہ معیار پر منحصر ہو گا، جن میں آواز کی حد، شور کم کرنے کے اقدامات، مسجد کا محلِ وقوع، رہائشی علاقوں سے قربت اور قریبی آبادی پر پڑنے والے اثرات شامل ہیں۔ یہ مسودہ قانون قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ زویکا فوگل نے پیش کیا ہے، جس میں مؤذن کی جانب سے دی جانے والی اذان کو بعض حالات میں ’’غیر معقول شور‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا، عالمی سطح پر مذمت کا سامنا

فلسطینی شہریوں اور انسانی حقوق کے حلقوں کی شدید مخالفت
اسرائیل کے فلسطینی شہریوں نے اس مجوزہ قانون کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ اذان شور کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دراصل فلسطینیوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو مٹانے کی ایک اور کوشش ہے۔ لود میں مقیم انسانی حقوق کے وکیل اور کارکن خالد زبرقہ نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ ’’یہ شور کا معاملہ نہیں ہے۔ اذان شور نہیں۔ یہ سیکڑوں برسوں سے دی جا رہی ہے اور اسرائیل کے قیام کے بعد سے روزانہ پڑھی جاتی رہی ہے۔ یہ اچانک شور کا مسئلہ نہیں بن گئی۔‘‘ زبرقہ کے مطابق، یہ بل اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر یہودی شناخت کی علامتوں کو ختم کرنے کی ایک وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اذان فلسطینیوں کی مذہبی اور قومی شناخت کی علامت ہے، جو اس سرزمین کی تاریخ اور تہذیب کی یاد دہانی کراتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ:صحافی میٹ فورنی کا ”ہر ہندوستانی کی ملک بدری“ کا مطالبہ، ہندوستانیوں کے خلاف حملے کی دھمکی

قانونی اختیارات اور بھاری جرمانے
مجوزہ قانون کے تحت، اگر شرائط کی خلاف ورزی ہو تو پولیس افسران لاؤڈ اسپیکرز کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دے سکیں گے، جبکہ مسلسل خلاف ورزی کی صورت میں سامان ضبط بھی کیا جا سکے گا۔بل میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں:بغیر اجازت لاؤڈ اسپیکر لگانے یا چلانے پر ۵۰؍ ہزار شیکل اور اجازت نامے کی شرائط کی خلاف ورزی پر ۱۰؍ ہزار شیکل جرمانہ۔

’مذہبی جنونیت‘ کے الزامات
وضاحتی نوٹ میں جیوش پاور پارٹی نے مساجد سے آنے والی آواز کو ’’صحت کیلئے خطرہ‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ موجودہ قوانین ناکافی ہیں۔ تاہم، اذان پر پابندی کی کوششیں نئی نہیں ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں بھی اسی نوعیت کا ایک بل کابینہ میں پیش کیا گیا تھا، مگر وہ قانون نہ بن سکا۔ گزشتہ سال، بن گویر نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ مساجد کو اذان دینےسے روکیں، یہ کہتے ہوئے کہ اس سے یہودی شہری ’’پریشان‘‘ ہوتے ہیں۔ تازہ مسودے پر تبصرہ کرتے ہوئے بن گویر نے کہا کہ اذان کئی علاقوں میں ’’غیر معقول شور‘‘ ہے جو لوگوں کی صحت اور معیارِ زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے زویکا فوگل نے کہا کہ ’’غیر معمولی طور پر بلند آواز میں اذان دینا مذہبی نہیں بلکہ صحتِ عامہ اور معیارِ زندگی کا مسئلہ ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: گلوکار جیمس کا کنسرٹ ہنگامہ آرائی کے باعث منسوخ، ۳۰؍افراد زخمی

’مذہبی جنگ‘ کا خدشہ
اسرائیل میں کالعدم اسلامی تحریک کے سابق نائب سربراہ کمال الخطیب نے اس تجویز کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی کو باقاعدہ قانون کی شکل دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی جنگ کا ایک اور باب ہے اور اذان پر کسی بھی قسم کی پابندی کو مکمل طور پر مسترد کیا جانا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK