جنگ بندی کی کوششوں میں اسرائیل کے وزیر اعظم کی جانب سے پھر رکاوٹ، ترامیم کو معاہدہ کیلئے ضروری اسرائیل کے بنیادی اصولوں سے متصادم قراردیا۔
EPAPER
Updated: July 07, 2025, 2:02 PM IST | Agency | Tel Aviv
جنگ بندی کی کوششوں میں اسرائیل کے وزیر اعظم کی جانب سے پھر رکاوٹ، ترامیم کو معاہدہ کیلئے ضروری اسرائیل کے بنیادی اصولوں سے متصادم قراردیا۔
غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے درمیان جن کا حماس کی جانب سےبھی مثبت جواب دیاگیا ہے،اب اسرائیل حسب دستور ہٹ دھرمی پرا ترآیا ہے۔ جنگ بندی کیلئے حماس کی جانب سے کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں جنہیں اسرائیل نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے پر پیش کی گئی ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔ واضح رہے جنگ بندی کیلئے حماس نے اسرائیلی افواج کے انخلاء، امداد کے مسئلے پر کچھ ترامیم پیش کی ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس جن تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہی ہے وہ ناقابل قبول ہیں اور یہ اسرائیل کے اُن بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں جو کسی بھی معاہدے کیلئے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ واضح رہےکہ نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جبکہ حماس کی جانب سے پیش کردہ ترامیم پر گفتگو کیلئےاسرائیل کا وفد اتوار کو دوحہ روانہ ہونے والا تھا۔
اسرائیلی کابینہ نے حماس کے جواب پر جمعہ اور سنیچر کو مسلسل سیشنوں میں تبادلہ خیال شروع کیا تھاجس کے بعد اسرائیل بات چیت کے لیے اتوار کو ایک وفد قطر بھیجنے پرراضی ہوا۔ تجویز کردہ منصوبے کے تحت غزہ میں قید۱۰؍ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں رہا کیا جائے گا، جبکہ۱۸؍ کی لاشیں واپس کی جائیں گی اور اس کے بدلے متعدد فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ یہ مرحلہ وار عمل۶۰؍ دنوں کی جنگ بندی کے دوران ۵؍ مراحل میں مکمل ہوگا۔
اس معاہدہ کے تحت ایک عارضی جنگ بندی تک پہنچنے کا امکان موجود ہے۔ خاص طور پر اس لیے معاہدے میں مشکل ہے کہ تل ابیب کسی بھی معاہدے میں ایسی شقوں پر اصرار کر رہا ہے جس سے اسے مستقبل میں لڑائی دوبارہ شروع کرنے کا بہانہ مل سکے۔
اسرائیلی کابینہ کا اجلاس، اہل غزہ کی جنوب کی طرف منتقلی پر غور
اسرائیلی اخبار ’معاریو ‘ کے مطابق سیکوریٹی اور سیاسی امور پر مشتمل کابینہ کے حالیہ اجلاس میں غزہ کی انسانی صورتحال سے متعلق مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ ان میں سب سے نمایاں تجویز یہ تھی کہ شہریوں کو غزہ کے جنوبی علاقوں کی طرف منتقلی پر آمادہ کیا جائے۔ کابینہ نے رفح کو ایک ’انسانی امدادی زون ‘ میں تبدیل کرنے کی تجویز پر بھی بحث کی، جسے غزہ کی بگڑتی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ رفح کراسنگ کے متعلق ایک جامع منصوبہ تیار کر کے آئندہ جمعرات تک پیش کرے۔
یہ تمام پیش رفت ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب عالمی برادری غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر چکی ہے اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس مکمل انخلا اور دوبارہ جارحیت نہ ہونے کی ضمانت جیسے مطالبات پر قائم ہیں۔
حماس کی ترامیم کیا ہیں ؟
’ٹائمس آف اسرائیل‘ کی ویب سائٹ کے مطابق ایک اسرائیلی ذریعے نے بتایا کہ حماس ۶۰؍ روزہ مجوزہ جنگ بندی کے اختتام تک مستقل جنگ بندی کے بارے میں مذاکرات کے مکمل نہ ہونے کے امکان کے بارے میں مزید وضاحت چاہتی ہے۔ حماس کو پیش کردہ امریکی تجویز میں ۶۰؍ دن کی مدت کے بعد جنگ بندی میں توسیع کی گنجائش موجود ہے جب تک کہ دونوں فریق نیک نیتی سے بات چیت کر رہے ہوں۔ لیکن ذرائع نے کہا ہے کہ حماس آخری شرط کو ختم کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا موقع ہو گا جسے وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ دوبارہ شروع کرنے کیلئے استعمال کریں گے۔ نیتن یاہو نے گزشتہ مارچ کو بھی ایسا ہی کیا تھا کہ جنوری میں طے پانے والے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کردئیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ حماس چاہتی ہے کہ تجویز میں کہا جائے کہ مستقل جنگ بندی کے بارے میں بات چیت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
حماس کی دوسری ترمیم امداد سے متعلق ہے۔ حماس امداد کی تقسیم مکمل طور پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی حمایت سے دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے نہ کہ صرف امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ’غزہ انسانی ہمدردی تنظیم کے ذریعے۔ حماس کے جواب میں تیسری ترمیم جنگ بندی کے دوران اسرائیلی افواج کے انخلاء سے متعلق ہے۔ اس کامطالبہ ہے کہ اسرائیلی فوج ان پوزیشنوں پر واپس چلی جائے جن پر وہ گزشتہ مارچ میں سابقہ جنگ بندی کی ناکامی سے قبل قابض تھی۔
ایتمار بن گوئر نے جنگ بندی کی تجویز ہی مسترد کردی
اس دوران اسرائیل کی قومی سلامتی کےو زیر ایتمار بن گویر نے غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ بن گویر نے شر انگیزی کا ثبوت دیتے ہوئے غزہ پر مکمل قبضہ کو واحد حل قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ غزہ کو مستقبل میں غیر مسلح کرنے کے وعدے، جزوی معاہدے، جن میں اسرائیلی فوج کا کنٹرول والے علاقوں سے انخلا، سیکڑوں فلسطینیوں کی رہائی جنہیں انہوں نے ’دہشت گرد‘قراردیا اور بڑی مقدار میں انسانی امداد کی ترسیل شامل ہے، ہمارے اصل مقصد سے ہمیں دور لے جا رہے ہیں اور حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے رہے ہیں۔