Inquilab Logo

اسرائیل کا جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کا بائیکاٹ

Updated: March 05, 2024, 11:56 AM IST | Agency | Washington

مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی کی کوششیں ایک بار پھر متاثر، حماس کا بھی یرغمالوں کی مکمل فہرست سونپنے سے انکار، امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی فوری جنگ بندی کی اپیل۔

Some people search for survivors from a building that became a pile of rubble in the recent attack on Rafah. Photo: INN
رفح پر حالیہ حملے میں مبلے کا ڈھیر بن چکی ایک عمارت سے کچھ لوگ زندہ افراد کو تلاش کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قاہرہ میں جاری جنگ بندی کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ اسرائیل نے حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کی فہرست دینے سے انکار کے بعد غزہ میں جنگ کو روکنے کیلئے ہونے والے قاہرہ مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اسرائیل نےحماس کے ذریعے یرغمال بنائے گئے افراد کی مکمل فہرست طلب کی تھی جسے حماس نے فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ 
 اتوار کے ہی روز حماس کا ایک وفد قاہرہ مذاکرات کیلئے پہنچا تھا اور۶؍ ہفتے کیلئے جنگ بندی کے مذاکرات کے کامیاب ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن اسرائیل کا وفد موجود نہیں تھا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اسرائیلی میڈیا میں اسرائیلی عہدیداروں کے موقف سے متعلق رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ قاہرہ میں اسرائیل کا کوئی وفد موجود نہیں ہے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہےکہ حماس کھل کر سوالات کے جواب مہیا نہیں کر رہا ہےاس لئے اسرائیلی وفد کے جانے کا سوال نہیں بنتا۔ اس سے قبل امریکہ نے بتایا تھا کہ جنگ بندی کی ڈیل آخری مراحل میں ہے جس کے تحت رمضان سے قبل لڑائی روک دی جائے گی لیکن فریقین نے اس سلسلے میں نہ تو عوامی طور پر ایسے امکانات ظاہر کئے ہیں اور نہ ہی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹے ہیں۔ 
اسرائیل شرائط تسلیم کرلے تو جنگ بندی ممکن ہے :حماس 
حماس کے وفد کے قاہرہ پہنچنے کے بعد رائٹرز کو ایک اہلکار نے بتایا کہ وہ ابھی تک کسی معاہدہ کو حتمی شکل دینے کے قریب نہیں ہیں جبکہ اسر ائیل کی جانب سے کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل مصر میں جاری مذاکرات کے دوران حماس کی شرائط تسلیم کرتا ہے تو غزہ میں ۲۴؍ سے۴۸؍ گھنٹوں کے دوران جنگ بندی ممکن ہو سکتی ہے۔ `اے ایف پی کے مطابق حماس لیڈر نے قاہرہ میں جاری مذاکرات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل، شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی اور امداد میں اضافے پر رضا مند ہوتا ہے تو اس پیش رفت کے نتیجے میں اگلے۲۴؍ سے۴۸؍گھنٹوں میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔ 
غزہ میں فوراً جنگ بندی ہونی چاہئے : کملا ہیرس
 امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کیلئے اقدامات کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ’’ اسرائیل فلسطینیوں کیلئے امداد میں تیزی لائے، اب کوئی بہانہ نہیں چلےگا۔ ‘‘۔ کملا ہیرس کی یہ اپیل صدر جو بائیڈن کی حکومت کی جانب سے جنگ کو روکنے کیلئے اب تک کی سب سے مضبوط اپیلوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے حماس سے بھی اپیل کی کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کا اسرائیل کا مطالبہ تسلیم کرے اورجنگ بندی کی راہ ہموار کرے۔ کملاہیرس نے کہاکہ ’’اب جنگ بندی ہو، یرغمال اپنے گھروالوں سے مل جائیں اور غزہ کے عوام کو فوری راحت نصیب ہو۔ ‘‘
اتوار کو ریاست الاباما کے شہر سیلما میں میجر سول رائٹس اینیورسری کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ ’’غزہ میں ناقابل یقین تباہی اور انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے وہاں فوری جنگ بندی ہونی چاہئے۔ ‘‘
 واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ خبر دار کرچکی ہے کہ غزہ کے محصور علاقے میں قحط پڑ رہا ہے۔ امریکی نائب صدر نے یہ خطاب ایڈمنڈ پیٹس برج پر کیا جہاں ۵۹؍ سال قبل ریاستی فوجیوں نے امریکی شہری حقوق کیلئے مارچ کرنے والوں کو مارا پیٹا تھا۔ اس دن کو ’خونیں اتوار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کملا ہیرس نے کہا کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ حالات غیر انسانی ہیں اور ہماری مشترکہ انسانیت ہمیں عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ 
امریکہ نے غزہ میں امدادی پیکٹ گرائے
 غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد امریکہ نے پہلی بار غزہ کے لوگوں کو مدد پہنچائی ہے اور یہ مدد کھانوں کے پیکٹ کے طور پر ہے۔ یہ پیکٹ امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے سمندر کے قریب بنے امدادی پوائنٹ کے پاس گرائے گئے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ۲۲؍لاکھ سے زائد آبادی زبردست غذائی قلت کی شکار ہے۔ ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق امریکہ نے۶۶؍ ڈبوں میں ۳۸؍ہزار کھانے کے پیکٹ گرائے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے اور وہ مستقبل میں بھی غزہ میں فلسطینیوں کی مدد کرتا رہے گا۔ کھانے کے پیکٹ گرانے کا یہ ایک مشترکہ آپریشن تھا جس میں امریکی فوج کے ساتھ اردن کی فوج بھی شامل تھی۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ امریکہ کی جانب سے جہاں کھانے کے یہ پیکٹ گرائے گئے ہیں وہیں اس سے قبل یکم مارچ کو کھانا لینے کے لیے جمع ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کر دی تھی جس میں ۱۱۲؍ فلسطینی جاں بحق ہو گئے تھے۔ یکم مارچ کو امدادی پوائنٹ پر اسرائیلی فوجیوں کی وحشیانہ فائرنگ میں جاں بحق ہونے والوں کو اسی ٹرک کے ذریعے اسپتال پہنچایا گیا تھا جس میں امدادی سامان آیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK