عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتےہوئے صہیونی حکومت کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں ۲۲؍ نئی بستیاں تعمیر کی جائیں گی جو آباد کاری کو نئی سمت دیں گی۔
EPAPER
Updated: May 30, 2025, 11:57 AM IST | Agency | Jerusalem
عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتےہوئے صہیونی حکومت کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں ۲۲؍ نئی بستیاں تعمیر کی جائیں گی جو آباد کاری کو نئی سمت دیں گی۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اسرائیل مغربی کنارےمیں یہودی آباد کاروں کی مزید ۲۲؍ بستیاں تعمیر کرے گا۔ غزہ میں قتل عام اور قبضے کے دوران اسرائیل کا یہ اعلان ایک طرح سے فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک اور عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یاد رہے کہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔ اس کے علاوہ ان بستیوں کو جن میں لاکھوں اسرائیلی شہری آباد ہیں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین دیرپا امن کے قیام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ نے کیا اعلان کیا؟
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں ان نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا فیصلہ وزارت برائے دفاع نے کیا ہے۔ اسموٹریچ، جو خود بھی ایک آباد کار ہیں، نے یہ اعلان اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے ساتھ مل کر کیا، جن کی وزارت ان بستیوں کے انتظام کی ذمے دار ہے۔ اسموٹریچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، `ہم نے بستیوں کی تعمیر سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جوڈیا اور سماریا (عربی میں السامرہ) میں ۲۲؍ نئی بستیوں کی تعمیر، سماریا کے شمال میں قائم بستی کا احیاء، اور ریاست اسرائیل کے مشرقی محور کا دوبارہ مضبوط بنایا جانا۔ ‘‘اہم بات یہ ہے کہ اسموٹریچ نے جوڈیا اور سماریا کی جو جغرافیائی اصطلاحات استعمال کیں، وہ فلسطین کا قدیم توراتی نام ہے اور اسرائیل میں انتہائی کٹر سوچ کے حامل سیاسی حلقے یہ اصطلاح مغربی کنارے کے اس فلسطینی علاقے کیلئے استعمال کرتے ہیں، جس پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ءکی عرب اسرائیل جنگ کے دور سے قبضہ کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:بہار میں وزیر اعظم نریندر مودی کا روڈ شو
’اگلا مرحلہ: خود مختاری‘
اسرائیلی وزیر خزانہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے متعلق مزید لکھا ہے ’’اگلا مرحلہ: خود مختاری!‘‘ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ اس فیصلے سے `خطے کی شکل بدل جائے گی اور آئندہ برسوں میں (اسرائیلی) آباد کاری کے مستقبل کی تشکیل بھی ہو گی۔ ‘‘اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک بیان میں کہا کہ یہ `ایک پوری نسل کی طرف سے ایک ہی بار کیا جانے والا فیصلہ ہے، جس میں قائدانہ کردار اسموٹریچ اور کاٹز نے ادا کیا۔ ‘‘لیکوڈ پارٹی نے ٹیلیگرام پر اپنے بیان میں مزید کہا، `اس فیصلے میں اردن کے ساتھ مشرقی سرحد کے قریب چار نئی بستیوں کا قیام بھی شامل ہے، جو مشرق میں اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنانے کے عمل کا حصہ ہے اور ساتھ ہی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے پر اسرائیل کی اسٹریٹیجک گرفت کو بھی مزید مضبوط بنائے گا۔ ‘‘
لیکوڈ پارٹی نے ایک ایسا نقشہ بھی شائع کیا، جس میں پورے ویسٹ بینک میں پھیلی ہوئی ان ۲۲؍ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے مقامات دکھائے گئے ہیں۔
فیصلے کی مذمت
اسرائیلی حکومت کے اس اعلان کے بعد انسانی حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عملی طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لینے کی طرف ایک اور قدم ہے، جس کی رفتار اب تیز ہو چکی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی باشندوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل اس پورے خطے کو اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ ان گروپوں اور تنظیموں کے مطابق مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لینے کی اسرائیلی کوششوں میں خاص طور پر غزہ پٹی کی اس جنگ کے باعث تیزی آ چکی ہے، جو ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے اسرائیل میں حماس کے خونریز حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کے مخالف `پیس ناؤ‘ نامی گروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’اسرائیلی حکومت اب کوئی مختلف دکھاوا بھی نہیں کرتی: مقبوضہ علاقوں کا اسرائیل میں شامل کیا جانا اور آباد کاروں کی بستیوں میں توسیع اس کا مرکزی ہدف ہے۔ ‘‘اس غیرسرکاری تنظیم کے مطابق، `اسرائیل نے جو نیا فیصلہ کیا ہے، وہ مغربی کنارے کی ڈرامائی حد تک نئی تشکیل کرے گا اور یوں وہاں اسرائیلی قبضے کو مزید تقویت ملے گی۔ ‘‘