Inquilab Logo

جودھپور: سرکاری اسکول میں باحجاب طالبات کو داخل ہونے سے روکا گیا، نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ درج

Updated: February 24, 2024, 8:36 PM IST | Jodhpur

جودھپور، راجستھان کے ایک سرکاری اسکول میں معلم کی جانب سے طلبہ کو بے حجاب یا پھر اسکول نہ آنے کی ہدایت دی گئی۔ بورڈ امتحان میں نمبر بھی کم کرنے کی دھمکی دی گئی۔ معاملے میں ہندو یوا واہنی، شیو سینا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اراکین از خود کود پڑے۔ اسکول کے باہر نعرے بازی کی گئی اور یوگی ماڈل کا حوالہ دیا گیا۔ والدین کے احتجاج کے بعد حالات معمول پر ہیں۔ بعد میں پرنسپل نے نا معلوم افراد کے خلاف معاملہ درج کرایا۔

Demonstration of students outside the school in Jodhpur. Photo: X
جودھپور میں اسکول کے باہر طالبات کا مظاہرہ۔ تصویر: ایکس

راجستھان کے جودھپور کے پیپر قصبے میں ایک سرکاری اسکول کے باہر احتجاج کرنے والی با حجاب طالبات کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئیں جن میں انہیں حجاب پہننے کی وجہ سے اسکول میں داخلےسے روکے جانے پر اسکول حکام سے بحث کرتےہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ طالبات نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسکول کے اساتذہ میں سے ایک نے انہیں `چمبل کا ڈاکو کہا اور کہا کہ اگر وہ اسکول میں حجاب پہننا جاری رکھیں گی تو بورڈ امتحانات میں ان کے نمبر کم ہو جائیں گے۔ 
معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان بھی از خود اس میں شامل ہو گئے اور بعد میں ضلع اور اسکول حکام کو معاملے کو حل کرنے کیلئے مداخلت کرنی پڑی۔ اس واقعہ کے بعد مکتوب میڈیا نے طلبہ اور ان کے والدین سے بات چیت کی۔ 
پیپر ٹاؤن کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول نمبر ۲؍ میں بارہویں جماعت کی طالبہ ثانیہ خان جہاں یہ واقعہ سامنے آیا وہ اسکول اسمبلی کیلئے تیار ہورہی تھی کہ اچانک ایک ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوئی اور باحجاب طالبات کی طرف اشارہ کیا اور ان سے کہا کہ اگر وہ سر ڈھانپنا چاہتی ہیں تو اسکول چھوڑ دیں۔ 
مکتوب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ثانیہ نے بتایا کہ’’میں روزانہ اسکول میں حجاب پہنتی ہوں، آج تک کسی نے مجھے یا دوسری باحجاب طالبات کو کچھ نہیں کہالیکن سنیچر کو ایک ٹیچر نے ہمیں اسے اتارنے کا حکم دیا۔ ‘‘
ثانیہ نے ٹیچر کا نام نہ بتانے کی وجہ بتائی کہ وہ امتحان میں میرے نمبر کم کردیں گی۔ ثانیہ مزید کہا کہ ’’استاد نے ہم سے کہا چمبل کے ڈاکو ہو کیا جو یہ پہن کر آتے ہو؟ استاد نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ہم نے ان کے ریمارکس کی مخالفت کی یا اپنا حجاب نہیں ہٹایا تو آنے والے بورڈ امتحانات میں ہمارے نمبر کم کر دیں گے۔ ‘‘ اس نے مزید کہا کہ ’’تمام طلبہ نے اس اسلام مخالف ریمارکس کے بارے میں ٹیچر کی مخالفت شروع کر دی لیکن انہوں نے معذرت کے بجائے ہمیں اسکول چھوڑنے کیلئے کہا۔ لہٰذا ہم اسکول سے نکل گئے، اپنے والدین کو بلایا، اور پھر اسکول انتظامیہ سے ملاقات کی۔ 
طلبہ کی رپورٹ کے مطابق خاتون ٹیچر نے اپنے ایک مرد ساتھی کے ساتھ مل کر ’’اسلام مخالف ریمارکس‘‘ دیئے۔ جب والدین اور اسکول انتظامیہ کا سامنا ہوا تو انہوں نے شروع میں ان دعوؤں کی تردید کی لیکن بعد میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ انتظامیہ کے اصرار پر اساتذہ نے بھی آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ 
نویں جماعت کی ایک اور طالبہ اقصیٰ بانو اس سارے واقعے سے حیران رہ گئی اور وہ بھی سنیچر کواسکول کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ میں شامل ہوگئی۔ 
وہ گزشتہ چار سال سے اپنی تین بہنوں کے ساتھ اسکول میں پڑھ رہی ہے لیکن اس نے بتایا کہ ’’مجھے کبھی بھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کسی نے مجھے اسکول میں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکا، اور ہمارے یہاں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو اپنے اپنے مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔ ‘‘ اس نے کہا کہ ’’ہماری ہندی ٹیچر ہمیں حجاب اتارنے کیلئے کہتی ہیں مگر والدین کے آنے پر انہوں نے جھوٹ بولا مگر جب سبھی طلبہ نے گواہی دی تو انہوں نے اپنی غلطی قبول کرلی۔ ‘‘ 
سنیچر کو گھر پہنچ کر اقصیٰ نے اپنے والدین کو سارا واقعہ بیان کیا۔ ۲۰؍فروری کو جب اس کے ماموں محمد یونس لڑکیوں کو اسکول لے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ باہر دائیں بازو کی تنظیموں کے اراکین کھڑے ہیں، جو باحجاب طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 
محمد یونس نے کہا کہ جب دوسرے والدین اور میں نے اسکول میں ان کی مداخلت پر سوال کیا، تو گروپ، جس میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، شیو سینا، اور ہندو یوا واہنی کے اراکین شامل تھے، نعرے لگانے لگے۔ انہوں نے `بی جے پی کا راج ہےجیسی باتیں کہیں۔ اب، بلڈوزر چلیں گے، سیدھا کردیں گے، اور اب `کانگریس کا راج نہیں ہے جو اپنی من مانی کروگے۔ ایسی باتیں کہیں۔ یونس نے دیگر والدین کے ساتھ اسکول حکام سے دوبارہ ملاقات کی اور طلبہ کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد اسکول نے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسکول کے باہر کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ یونس سمیت دیگروالدین اسکول کی ذمہ داری اور یقین دہانی پر اسکول سے لوٹ گئے۔ 
اس پورے واقعے کے سلسلے میں اسکول کے پرنسپل رام کشور نے ۲۰؍فروری کو پیپر سٹی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ شکایت میں ۵؍ سے ۶؍ نا معلوم افراد کے خلاف ریاست کے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے اوردھمکی دینے کا الزام لگایا۔ پیپر پولیس نے تعزیرات ہند ۱۸۶۰ء

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK