ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے سے الاتحاداردو اسکول کی طالبہ کو معذوروں کے کوٹے کے تحت داخلے کی اجازت مل گئی۔ اہل خانہ خوش۔
عظمیٰ رشید خان۔ تصویر: آئی این این
تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، خواہ وہ جسمانی طور پر صحت مند ہو یا کسی معذوری کا شکار۔ حالیہ برسوں میں عدلیہ نے ایسے کئی فیصلے صادر کئے ہیں جنہوں نے معذور طلبہ کیلئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اسی قسم کے ایک معاملہ میں نابینا طالبہ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار باقاعدہ سرٹیفائیڈ معذور ہے تو اسے بار بار مختلف بورڈز کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے طالبہ کو ’ نیٹ یوجی ۲۰۲۵ء‘کی کونسلنگ میں پی ڈبلیو بی ڈی کوٹہ کے تحت شرکت کی اجازت دی اور حکم دیا کہ داخلہ کے عمل میں اس کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ معذور افراد کے حقوق کے قانون ۲۰۱۱۶ء کے تحت دیا گیا، جس کے مطابق معذور افراد کو تعلیم میں برابری کا حق حاصل ہے۔ کسی تعلیمی ادارے کو ان کی معذوری کی بنیاد پر داخلہ دینے سے انکار کا حق نہیں۔ معذوری داخلہ کا زمرہ قانونی حقوق کی بنیاد پر ہے یہ معذور افرادکیلئے خصوصی رعایت نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق ہے۔
جوگیشوری مغرب کی طالبہ عظمیٰ رشید خان نے عزم، حوصلے اور عدالتی انصاف کی ایک مثالی کہانی رقم کی ہے۔ نابینا ہونے کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور آخرکار بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ایم بی بی ایس ۲۰۲۵ء میں داخلے کا حق حاصل کر لیا۔اس کے پاس پہلے سے ہی۴۰؍ فیصد بصری معذوری کا سرٹیفکیٹ اور’یو ڈی آئی ڈی‘ کارڈ موجود تھا مگر ایمس ناگپور اور ممبئی کے گرانٹ میڈیکل کالج جے جے اسپتال کے میڈیکل بورڈز نے اسے ’پی ڈبلیوڈی‘ کوٹے کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔عظمیٰ خان نے ناانصافی کے اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ چھیڑی اوربامبے ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ جب عظمیٰ کے پاس باقاعدہ طور پر۴۰؍ فیصد نابینا ہونے کا تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ موجود ہے تو دوبارہ معذوری کی جانچ کی کوئی ضرورت نہیں۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ عظمیٰ میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور اسے نیٹ کے تیسری کاؤنسلنگ راؤنڈ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب نیٹ کاؤنسلنگ کا تیسرا مرحلہ اپنے آخری مرحلے میں تھا۔ بلکہ آل انڈیا ایڈمیشن پریفرنس فارم بھرنے کا تیسرے راؤنڈ کا وقت ختم ہو چکا تھا مگر عظمیٰ کے لئے خصوصی طور پر پورٹل کو آدھے گھنٹہ کے وقفہ کے لئے دوبارہ کھول کر فارم پُر کرنے کا موقع دیا گیا۔ عدالت کے فیصلے نے عظمیٰ کیلئے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیئے بلکہ معذور طلبہ کیلئے امید کی نئی کرن بھی روشن کر دی۔
عظمیٰ کے والد نے انقلاب سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عظمیٰ نے دسویں اور بارہویں کا امتحان الاتحاد اردواسکول سے بالترتیب ۷۵؍ فیصد اور۷۹؍ فیصد نمبرات سے کامیاب کیا تھا۔ نیٹ کی تیاری کے دوران اچانک ایک روز اس نے ایک چیخ کے ساتھ آواز لگائی کہ مجھے دھندلا نظر آرہا ہے یہ ہمارے لئے دل دہلا دینے والی خبر تھی جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل تھا۔ بعد ازیں یکے بعد دیگر ہم نے متعدد اسپتالوں کے چکر لگائے جس میں طویل عرصہ بیت گیا۔ اسی دوران میں نے اس کا ’یو ڈی آئی ڈی ‘ کارڈ بنوایا۔ عظمیٰ نے ایک بار نیٹ کی تیاری کا اظہار کیا اور خوب تیاری سے نیٹ۲۰۲۵ءمیں شرکت کی جس میں اسے۲۸۶؍ نمبرات حاصل ہوئے۔ انہی نمبرات کی بنیاد پر اسے معذوری کے زمرہ میں گورنمنٹ کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ کی امید تھی مگر مایوسی تب ہاتھ آئی جب اسناد کی جانچ کے دوران اسے داخلہ کیلئے یہ کہتے ہوئے نہ اہل قرار دیا گیا کہ وہ میڈیکل تعلیم میں فنکشنل قابلیت کی اہل نہیں ہے۔ میں نے رہنمائی کی غرض سے خدمت ٹرسٹ کا رخ کیا جہاں سے مجھے ایڈوکیٹ راہل بجاج کا نمبر حاصل ہوا۔ ان کی رہنمائی اور اصرار پر ہم نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی جہاں بے شمار قانونی پیچیدگیوں کے بعد الحمد للہ ہمارے حق میں فیصلہ آیا۔
اس کامیابی پر اسکول انتظامیہ، پرنسپل، اساتذہ، والدین اور علاقہ کے لوگوں نے دلی مسرت کا اظہار کیا ہے۔