چین سے فنڈنگ کا الزام ،کچھ صحافی زیر حراست ، اپوزیشن کی شدید تنقید۔
EPAPER
Updated: October 04, 2023, 9:31 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
چین سے فنڈنگ کا الزام ،کچھ صحافی زیر حراست ، اپوزیشن کی شدید تنقید۔
دہلی پولیس کے خصوصی سیل کے ذریعہ غیر جانبدار نیوز پورٹل’ نیوز کلک‘ سے وابستہ صحافیوں کے یہاں نئی دہلی اور ممبئی میں کم ازکم ۳۵؍ مقامات پر چھاپے ماری کی گئی ۔جن کے خلاف چھاپے مارے گئے ان میں نیوز کلک کے چیف ایڈیٹر پربیر پورکائستھ، صحافی ابھیسار شرما، آنندیو چکرورتی، بھاشا سنگھ، ارملیش، سومیدھا پال، اریتری داس اور طنز نگار سنجے راجور ہ وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ ملک کی معروف سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواد اور معروف صحافی پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا کے خلاف بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔ کچھ صحافیوں کو دہلی میں خصوصی سیل کے دفتر لے جایا گیا۔ حالانکہ پولیس نے واضح کیا ہے کہ ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا تاہم نیوز کلک کا دفتر سیل کردیا گیا ہے۔
یہ چھاپے ماری یو اے پی اے اور آئی پی سی کی کئی دفعات کے تحت۱۷؍اگست کو درج ایک مقدمہ میں کی گئی جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ نیوز کلک چین سے فنڈنگ حاصل کررہا ہے۔ صحافی ابھیسار شرما نے صبح کے وقت ٹویٹ کرکے لکھا تھا کہ پولیس ان کے گھر پر موجود ہے اور ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل لے جارہی ہے۔ تاہم ،اس خبر کولکھتے وقت اطلاع ہےکہ ابھیسا رشرما دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے دفتر سے پوچھ گچھ کے بعدباہر نکل چکےہیں۔ ان کے باہر نکلنے کا ویڈیو بھی سامنے آیا ہے۔ صحافی بھاشا سنگھ نے بھی ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ میں اپنے فوبائل سے آخری ٹویٹ کررہی ہوں۔ پولیس میرا موبائل ضبط کررہی ہے۔ پولیس نے چھاپے صرف نیوز کلک انتظامیہ پر نہیں مارے بلکہ اس سے وابستہ صحافیوں کے علاوہ وہاں کام کرنے والے ملازمین پر بھی مارے ہیں۔دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی چھاپے ماری کی اس کارروائی پر متعدد صحافی تنظیموں اور میڈیا سے وابستہ افراد نے شدید وغم وغصہ کااظہار کرتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے سینئر صحافیوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے ماری اوراس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے صحافیوں کی حراست پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ گلڈ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مناسب طریقہ کار کی پیروی کرے، اور سخت مجرمانہ قوانین کو پریس کو دھمکانے کا آلہ نہ بنائے۔ گلڈ نے مزید لکھا کہ تنظیم نےیہ یاددہانی کرائی کہ ایک فعال جمہوریت کیلئےآزاد میڈیا کا وجود لازمی ہے۔
اس چھاپوں کے تعلق سے انڈیا اتحاد نے اپنے بیان میں مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ گزشتہ ۹؍ سال میں بی جے پی حکومت نے بی بی سی، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر، بھارت سماچار، کشمیر والا، دی وائر وغیرہ کو دبانے کے لئے تحقیقاتی ایجنسیوں کو تعینات کر کے قصداً میڈیا کو پریشان کیا ہے اور تازہ معاملہ نیوز کلک کے صحافیوں پر کارروائی کا ہے۔ اس کارروائی سے واضح ہوا کہ مودی حکومت کتنی خوفزدہ ہے۔ مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت کی کارروائی ہمیشہ صرف ان میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف ہوتی ہیں جو سچ بولتے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی حکومت ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی جو ملک میں نفرت اور زہر انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس وقت بی جے پی مفلوج نظر آنے لگتی ہے۔ بی جے پی کو چاہیے کہ وہ قومی مفاد میں عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرے اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا پر حملے بند کرے۔ اس تعلق سے کانگریس نے بھی سخت ردعمل دیا۔
پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے ایکس پر پوسٹ پر لکھا کہ کل جب سے بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، پورے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ مودی صاحب کی نیند اڑی ہوئی ہے۔ جب نصاب سے باہر کوئی سوال کھا ہو جاتا ہے تو مودی جی کے نصاب کا ایک دیکھا بھالا ہتھیار باہر نکال لیا جاتا ہے، جو مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا ہتھیار ہے۔ آج صبح سے نیوز کلک کے لئے تعاون کرنے والے صحافیوں کے خلاف جو کارروائی کی جا رہی ہے وہ اسی نصاب کا حصہ ہے۔وزیر اعظم مودی ڈرے ہوئے ہیں، گھبرائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ان لوگوں سے جو ان کی کوتاہیوں پر، ان کی ناکامیوں پر سوال پوچھتے ہیں۔ وہ حزب اختلاف کے لیڈر ہوں یا پھر صحافی، سچ بولنے والوں کا استحصال کیا جائے گا۔ آج پھر سے صحافیوں پر چھاپہ ماری اسی بات کا ثبوت ہے۔
دوسری طرف پریس کلب آف انڈیا نے بھی نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں اور قلمکاروں کے گھروں پرمتعدد چھاپوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔اپنے بیان میں پریس کلب نے کہا کہ ہم پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور ایک تفصیلی بیان جاری کریں گے۔
دریں اثناء پریس کلب میں اس پوری صورتحال پر ایک احتجاجی میٹنگ منعقد ہوئی۔اس میں فیصلہ کیا گیا کہ صحافیوں کی متعدد تنظیموں کی جانب سے میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لئے احتجاج جاری رکھا جائےگا۔ واضح رہے کے معروف سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواد کے جوہو والے مکان پر بھی چھاپہ مارا گیا تھا۔ دوسری طرف اس معاملے میں مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں۔ حکومت ان کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔