Inquilab Logo

ملازمتوں میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر کمی: لیبر فورس رپورٹ میں انکشاف

Updated: February 21, 2024, 7:59 PM IST | New Delhi

پیریوڈک لیبر فورس (پی ایل ایف ایس) کی تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان میں اجرت اور تنخواہ پر کام کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، خاص طور پر ملک کی مذہبی اقلیتوں (مسلم، سکھ، عیسائی) میں جبکہ اس شعبے میں اکثریتی طبقہ کا تناسب بڑھا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

پیریو ڈک لیبر فورس ( پی ایل ایف ایس ) کے تازہ ترین سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اجرت یا تنخواہ والی ملازمت والے مزدوروں کا فیصد ۲۰۱۹ء کے مالی سال میں ۸ء۲۳؍ فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں ۹ء۲۰؍ فیصد رہ گیا ہے۔ 
باقاعدہ اجرت کی ملازمت میں کمی نےہندو آبادی کے مقابلے میں مذہبی اقلیتی جماعتوں جیسے مسلمان، عیسائی اور سکھوں کو غیر متناسب طورپر متاثر کیا ہے۔ مسلمانوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ زوال کا سامنا کیا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے مالی سال میں تنخواہ والے ملازموں کی تعداد ۱ء۲۲؍  فیصد تھی لیکن یہ تعداد رواں مالی سال (۲۰۲۳ء) میں گھٹ کر ۳ء۱۵؍ فیصد رہ گئی ہے۔ اس میں ۸ء۶؍ فیصد کی کمی آئی ہے۔ 
اسی طرح مسیحی برادری میں ۲ء۳؍ فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ رواں مالی سال میں فقط ۲۸؍ فیصد مسیحی مزدوروں کے پاس باقاعدہ ملازمتیں تھیں جو ۲۰۱۹ء میں ۲ء۳۱؍ فیصد تھی۔ 
سکھ برادری نے بھی ۵ء۲؍ فیصد کی کمی کا مشاہدہ کیا ہے۔ رواں مالی سال میں صرف ۲۶؍ فیصد سکھ ملازموں کے پاس تنخواہ والا روزگار تھا جو ۲۰۱۹ء میں ۵ء۲۸؍ فیصد تھا۔ 
اس کے برعکس معیار ی روزگار میں کمی ہندو برادری میں سب سے کم تھی، جہاں ۴ء۲۱؍ فیصد ملازموں کے پاس رواں سال میں باقاعدہ تنخواہ والی ملازمتیں تھیں جو ۲۰۱۹ء میں ۷ء۲۳؍ فیصد کے مقابلے میں ۳ء۲؍ فیصد کم ہے۔ 
مجموعی طور پر اجرت یا تنخواہ والے ملازمین کا حصہ ۲۰۱۹ء میں ۸ء۲۳؍ فیصد سےکم ہو کر ۲۰۲۳ء میں ۹ء۲۰؍ فیصد ہو گیا ہے۔ 
باتھ یونیورسٹی کے ایک وزیٹنگ پروفیسر سنتوش مہروترا باقاعدہ اجرت والی ملازمتوں میں کمی کو کووڈ۔ ۱۹؍ کے اثرات اور وبائی امراض کے بعد کی دنیا میں کام کے معیار کی خرابی کو وجہ بتاتے ہیں جس نے خاص طور پر مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔ 
وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ شہری علاقوں میں اجرت کے روزگار کے مواقع زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں دیہی علاقوں کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے۔ مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے، جو بنیادی طور پر شہری علاقوں میں ہیں، نے وبائی امراض کے دوران معیاری ملازمتیں پیدا کرنے کیلئےجد و جہد کی۔ مہروترا نے مسلمانوں میں لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں کم سے کم اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 
مسلمانوں کیلئے لیبر فورس میں شرکت کی شرح (ایل ایف پی آر) میں ۲۰۱۹ء میں ۳ء۳۲؍ فیصد سے ۲۰۲۳ء میں ۵ء۳۲؍ فیصد کا معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہندوئوں کیلئے اسی مدت کےدوران ۲ء۳۸؍ فیصد سے بڑھ کر ۵ء۴۴؍ فیصد ہو گیا۔ 
واضح رہے کہ ایل ایف پی آر لیبر فورس میں افراد کے ذریعے فعال طور پر روزگار کی تلاش، یا آبادی کے تناسب کے طور پرکام کیلئے دستیاب افراد کی شمولیت کی فیصد کی پیمائش کرتا ہے۔ 
اس کے علاوہ اس سماج کے اندراجرت کے روزگار میں کمی نے خود ساختہ روزگار میں اضافہ کیا ہے (بشمول بلا معاوضہ گھریلو مزدوری یا چھوٹے کاروبار کا مالک ہونا) اور اس کے علاوہ عارضی ملازمتیں بھی شامل ہیں۔ 
اس سے واضح ہوا ہے کہ جبکہ تمام مذہبی گروہوں میں خود روزگاری بڑھ رہی ہے، عارضی مزدوری خاص طور پر مسلم سماج میں عام ہوتی جا رہی ہے۔ ۲۰۲۳ء میں تقریباً ۳ء۲۶؍ فیصد مسلم مزدور عارضی مزدوروں کے طور پر کام کرتے تھے جبکہ ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد ۷ء۲۵؍ فیصد تھی۔ یہ رجحان ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے برعکس ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK