امسال ۹؍ویں اور ۱۰؍ویں جماعت میں داخلہ لینے والے ۱۲ء۶؍فیصد لڑکےاور ۱۰ء۳۰؍ فیصدلڑکیوں نے اسکول چھوڑ دیا۔
EPAPER
Updated: September 08, 2025, 9:07 AM IST | Saadat Khan | Mumbai
امسال ۹؍ویں اور ۱۰؍ویں جماعت میں داخلہ لینے والے ۱۲ء۶؍فیصد لڑکےاور ۱۰ء۳۰؍ فیصدلڑکیوں نے اسکول چھوڑ دیا۔
تعلیمی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء میں ۹؍ ویں اور ۱۰؍ویں جماعت میں داخلہ لینے والے ۱۲ء۶؍فیصد لڑکےاور ۱۰ء۳۰؍ فیصدلڑکیوں نے تعلیمی سہولیات کے فقدان کے سبب اسکول چھوڑ دیا ہے۔ ایک تودیہی علاقوں میں سیکنڈری اسکول کم اور دور دراز علاقوں میں ہونے سے طلبہ اسکول چھوڑ دیتےہیں تو دوسرے جن سیکنڈری اسکولوں میں صرف ایک ٹیچر بچوں کو پڑھا رہا ہے ،ان اسکولوں کے طلبہ معیاری پڑھائی نہ ہونے سے اسکول چھوڑ رہے ہیں۔
امسال ان جماعتوں کے طلبہ کے اسکول چھوڑنے کی شرح۲۴۔۲۰۲۳ء کے مقابلے ایک فیصد زیادہ ہے ۔ اس کے علاوہ، تعلیمی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء کیلئے یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس ( یوڈائس ) کی رپورٹ کے مطابق، جو حال ہی میں محکمہ اسکولی تعلیم اور خواندگی کے ذریعہ جاری کی گئی ہے، یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریاست کے تقریباً ۴۱ء۶۰؍ فیصد ( اوّل تادہم تک ) کےاسکولوں میں خصوصی ضروریات والے بچوںکیلئے موزوں بیت الخلاء نہیں ہے۔
اگرچہ ریاست میں آرٹی ای ایکٹ کے پی ایم پوشن (دوپہر کے کھانے کی اسکیم) اور سمرگ شکشا ابھیان کے سخت نفاذ کے ذریعے پرائمری کلاس اوّل سے آٹھویں تک کے طلبہ کے اسکول چھوڑنے کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرنے میں کامیابی ملی ہے، لیکن اب سیکنڈری اسکولوں میں داخلے کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے اسکول دور دراز کے دیہاتوں میں واقع ہیں۔ ماہرین تعلیم نے رائے دی ہے کہ حکومت کو اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے کیلئے ثانوی تعلیم کی حوصلہ افزائی یا سبسڈی دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
محکمہ تعلیم کے سابق افسردنکر تیمکر کےبقول ’’نویں اور دسویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آس پاس کوئی سیکنڈری اسکول نہیں ہوتا ہے۔ زیادہ تر پرائمری اسکول پانچویں یا آٹھویں جماعت تک ہیں۔ انہیں سیکنڈری اسکول میں تعلیم کیلئے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور بعض علاقوں میں یہ طلبہ ٹرانسپورٹ خدمات یا سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے دھارے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو دسویں جماعت تک مفت کتابیں اور کھانا فراہم کرنا چاہئے حالانکہ یہ مرکزی اسکیمیں ہیں، ریاست اسے تعلیم کے معاملے میں نافذ کرسکتی ہے۔‘‘
سیکنڈ ری اینڈ ہائر سیکنڈری پرنسپل اسوسی ایشن کے سابق صدر مہند ر گنپولے کےمطابق ’’اس معاملہ میںصرف ایک استاد والے اسکولوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ اول تو اساتذہ کو مختلف کلاسوں کے طلبہ اور مختلف سیکھنے کی صلاحیتوں والے طلبہ کے ساتھ تبادلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ طلبہ کیلئے بھی برا ہے، کیونکہ جو لوگ پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں انہیں وہ توجہ نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ دوم، اساتذہ کیلئے یہ مشکل ہوتا ہے کہ جب وہ بیمار ہوں یا ذاتی مسائل ہوں تو چھٹی لینا ان کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘