Inquilab Logo

خاندیش کی ادبی فضا سوگوار، احمد کلیم فیض پوری کا انتقال

Updated: March 18, 2021, 12:10 PM IST | Sharjeel Qureshi | Bhusawal

بھساول میں تدفین عمل میں آئی، متعدد ادیبوں نے ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے اظہار تعزیت کیا

AK Faizpuri
احمد کلیم فیض پوری مرحوم

معروف افسانہ نگار، شاعر، تجزیہ کار اور نئی نسل کو لکھنے، پڑھنے، کتابوں، رسالوں اور اخبارات کی خریداری نیز معتبر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت کی تحریک دینے کیلئے مقبول  احمد کلیم فیض پوری بدھ کو علی الصباح جلگاؤں کے ایک نجی اسپتال میں علاج کیلئے لے جاتے وقت  انتقال کرگئے۔ ان کی عمر۸۴؍ سال تھی۔گزشتہ سنیچر کو ان کی شریک حیات کا انتقال ہوا تھا۔ اُن کی دائمی جدائی کے غم نے انہیں ایسا نڈھال کیا کہ ان کی حالت گرتی ہی چلی گئی۔  مرحوم کی نماز ِجنازہ نورانی مسجد کھڑکا روڈ پر ادا کی گئی جبکہ تدفین بھساول کے کھڑ کا روڈ قبرستان میں عمل آئی۔ 
 احمد کلیم فیض پوری ویسے تو فیض پور کے تھے مگر ملازمت کے سبب وہ بھساول آئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ انہوں نے کم و بیش چونتیس برس تدریسی خدمات انجام دیں اور انجمن اسکول سے ۱۹۹۳ء میں بحیثیت صدر مدرس سبکدوش ہوئے۔ اس دوران تخلیقی و تصنیفی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ان کی دو کتابیں ’’چندا کے دیس میں‘‘ (نظمیں) اور ’’ساگوان کی چھاؤں میں‘‘ (افسانے) شائع ہوئی ہیں مگر انہوں نے لکھا بہت کچھ۔  روزنامہ اُردو ٹائمز میں اُن کا کالم ’’میرے شہر کے لوگ‘‘ کافی مقبول ہوا تھا۔ اُن کا تخلیقی سفر عمر کے کسی پڑاؤ میں تھما نہیں۔ وہ ایک زمانے تک اُس وقت کے مقبول ماہناموں بانو، شمع اور بیسویں صدی میں چھپتے رہے۔ دیگر ادبی جریدوں میں بھی اُن کی تخلیقات بہ اہتمام شائع ہوئیں۔ ملک کے ممتاز اور صف اول کے قلمکاروں سے اُن کی یا تو خط و کتابت رہتی یا ملاقاتیں۔ شہر بھساول میں علم و ادب کا چراغ روشن رکھنے کیلئے وہ کل ہند مشاعروں اور ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے رہے۔  
 بھساول میں بحیثیت شاعر اُن کے ہم عصر اور بحیثیت معلم اُن کے ہم پیشہ احسان رسول پوری نے کہا کہ ’’احمد کلیم کے انتقال سے بہت دکھ ہوا،ان کی موت بھی ایسی ہوئی جس پر یقین نہیں آتا، ان کی اہلیہ اور ان کے انتقال کے درمیان اتنا کم فاصلہ! ایسی موت کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ انکی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔  ‘‘  
  معروف ادیب سلام بن رزاق نے اُن کی رحلت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’احمد کلیم مرنجان مرنج شخصیت تھے ۔ میرے مراسم ان سے بہت پرانے تھے۔ چند برس پہلے مجھے ان کے افسانوی مجموعہ ’’ساگوان کی چھاؤں میں‘‘کی رسم رونمائی میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ خوش مزاجی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ ان کی کمی برسوں محسوس ہوگی۔‘‘ سلام بن رزاق کی سرپرستی میں جاری ’’بزم افسانہ‘‘ (وہاٹس ایپ گروپ) کے متحرک رکن کی حیثیت سے بھی احمد کلیم فیض پوری آخری دنوں تک افسانوں پر اپنی رائے دیتے رہے۔ 
 اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے معروف افسانہ نگار نورالحسنین نے اظہار تعزیت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’احمد کلیم فیض پوری کی کہانیوں میں انسانی رویوں کے پیچ جس طرح کھلتے ہیں وہ حیرت میں ڈال دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص رخصت ہوگیا جو ذاتی زندگی میں تو مخلص تھا ہی، علم و ادب کے تعلق سے بھی اس کا خلوص قابل ذکر تھا۔‘‘ حیدر آباد سے ڈاکٹر محسن جلگانوی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ احمد کلیم فیض پوری کے انتقال سے خاندیش ایک ممتاز اور سینئر ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ ان کی رحلت میرے لئے ذاتی نقصان ہے کہ وہ اس علاقے میں میرے دیرینہ صاحب نظر محسن اور قدر دان تھے۔ ڈاکٹر ایم اے حق نے ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس سادگی اور خاموشی سے انہوں نے علم و ادب کی خدمت کی، اسی خاموشی سے اُنہوں نے رخت سفر باندھ لیا۔ مرحوم کے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK