ڈبلیو ایچ او کےمطابق ہر چھ میں سے ایک شخص تنہائی کا شکار ہے،اس کے اسباب میں موبائل کا بھی کلیدی رول ہے۔
EPAPER
Updated: July 07, 2025, 11:24 AM IST | Agency | New York
ڈبلیو ایچ او کےمطابق ہر چھ میں سے ایک شخص تنہائی کا شکار ہے،اس کے اسباب میں موبائل کا بھی کلیدی رول ہے۔
سوشل میڈیا اور موبائل کے اس دور میں جب دنیا پہلے سےزیادہ مربوط ہے اور لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ پہلے کے مقابلےمیں کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نےیہ سنسنی دعویٰ کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر ۶؍ میں سے ایک شخص تنہائی کا شکار ہےا ور تنہائی کی وجہ سے ہونےوالی بیماریوں کی وجہ سے ہر گھنٹے ۱۰۰؍ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کےمطابق ہر سال ۸؍ لاکھ ۷۱؍ ہزار اموات کی وجہ تنہائی یا اس کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ سماجی تنہائی جسمانی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے مطابق نوعمر تنہا افراد میں اپنے ہم جماعتوں کی بہ نسبت۲۲؍فیصد زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ کم نمبرات حاصل کریں جبکہ تنہا بالغ افراد کو ملازمت حاصل کرنے یا برقرار رکھنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈ روس نے اس پر تشویش کااظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ ’’اس دور میں جبکہ لوگوں سے جڑنےکےمواقع لامحدود ہیں، ایسے لوگوں کی تعدا دروز بڑھ رہی ہے جو خود کو اکیلا اور الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں۔ ‘‘ عالمی تنظیم کے کمیشن برائے سماجی تعلقات کی شریک صدر شیدو ایمپیبا کے مطابق ’’ڈیجیٹل طور پر جڑی ہوئی دنیا میں بھی بہت سے نوجوان خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ تکنالوجی ہماری زندگیوں کو تبدیل کر رہی ہے مگر ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ تبدیلی انسانی روابط کومضبوط کرے۔ انہیں کمزور کرنےکا باعث نہ بنے۔ ‘‘
کمیشن کے شریک چیئر پرسن ویویک مورتی نے تنہائی کو’’ایک تکلیف دہ، ذاتی احساس‘‘ کے طور پر بیان کیا، جو اس وقت ہوتا ہے، جب ہمیں درکار رشتے ہمارے موجودہ تعلقات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس سماجی تنہائی ایک ظاہری حالت ہے، جس میں رشتوں یا میل جول کی کمی ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر ۳؍ میں سے ایک بزرگ اور ہر چار میں سے ایک نوعمر سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہے۔ اس کی وجوہات میں بیماری، ناقص تعلیم، کم آمدنی، سماجی تال میل کے مواقع کی کمی، اکیلے رہنا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال شامل ہیں ۔ مورتی نےنشاندہی کی کہ انسان ہزاروں برسوں سے نہ صرف الفاظ بلکہ چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات، آواز کے لہجے اور خاموشی کے ذریعے بھی رابطہ کرتے رہے ہیں ۔ تاہم رابطے کے یہ طریقے موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر انحصار سے ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے سویڈن کو ایک مثبت مثال کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ سویڈش سوشل منسٹر جیکب فورسمیڈ کے مطابق ملک نے تنہائی کے خلاف ایک قومی حکمت عملی نافذ کی ہے۔ سویڈن تسلیم کرتا ہے کہ تنہائی صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ دکانوں ، ریستورانوں ، محلوں اور کلبوں میں سماجی روابط کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سویڈن میں جلد ہی تمام بچوں اور نوعمروں کو پری پیڈ کارڈز دیئے جائیں گے، جو صرف ’’گروپ کی صورت میں تفریحی سرگرمیوں ‘‘ کی بکنگ کیلئے استعمال ہوسکیں گے۔ فورسمیڈ نے مزید بتایا کہ سویڈن سرکاری اسکولوں میں موبائل فونز پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مطالعہ سے پتا چلا ہے کہ موبائل فونس پر پابندی سے اس سے سماجی میل جول بڑھتا ہے اور سائبر بلنگ کم ہوتی ہے۔