Inquilab Logo

سناتن دھرم: مدراس ہائی کورٹ نے ادھے ندھی اسٹالن کوعہدے سے ہٹانے کی عرضی مسترد کی

Updated: March 09, 2024, 8:36 PM IST | Tamil Nadu

مدراس ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں ادھے ندھی اسٹالن کے تبصرے کو اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال قرار دیا جبکہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی درخواست مسترد کر دی۔ کورٹ نے ذات پات کی بنیاد پر جاری عدم مساوات سے گریزکی صلاح دی۔

udhaynidhi stalin. Photo:INN
ادھے ندھی اسٹالن۔ تصویر:آئی این این

مدراس ہائی کورٹ نے اپنے حالیہ حکم سے ذات پات کے نظام کی ابتدا پر اپنے تبصروں کو ہٹا دیااور  سناتن دھرم پر بیان رد عمل کیلئے ادھے ندھی اسٹالن کو تمل ناڈو کے وزیر کے طور پر ہٹانے کی درخواست  مسترد کر دی۔واضح رہے کہ سناتن دھرم اصطلاح ہے جسے کچھ لوگ ہندو مت کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔۲؍ستمبر کو چنئی میں پریس کانفرنس میں،ادھے ندھی اسٹالن، جو تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے ہیں، نے کہا تھا کہ یہ ڈینگی اور ملیریا کے مترادف ہے۔ اسے ختم کر دینا چاہئے۔ 
۶؍ مارچ کو جسٹس انیتا سمنتھ کی یک نفری جج بینچ نے ہندوتوا گروپ ہندو منانی آرگنائزیشن کے تین عہدیداروں کی اس عرضی کو مسترد کیاہے  جس میں انہوں نے الزام عائدکیا تھا کہ ریاست کے ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف کے وزیر اور پی کے سیکر بابو اور نیلگیرس کے ایم پی اے ادھے ندھی اسٹالن سناتن دھرم کے خلاف ہیں اور اس طرح بحیثیت قانون ساز ادارے کے رکن اپنے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتے۔ 
حکم نامے میںکہا گیا کہ عدالت واضح طور پر اس بات سے متفق ہے کہ آج معاشرے میں ذات پات کی بنیاد پر عدم مساوات موجود ہے اور ان سے گریز کرنا چاہئے۔ تاہم، جیسا کہ ہم جانتے ہیں ذات پات کے نظام کی ابتداء ایک صدی سے بھی کم پرانی ہے۔ تاہم، ذاتوں کی درجہ بندی، جیسا کہ ہم انہیں آج جانتے ہیں،حالیہ اور جدید رجحان ہے۔
  بار اور بینچ کی رپورٹ کے مطابق جبکہ مختلف ذات پات کے گروہوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پہلے فیصلےمیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمل ناڈو میں ۳۷۰؍تسلیم شدہ ذاتیں ہیں۔ تاہم، فیصلے کا تازہ ترین ورژن کہتا ہے کہ ریاست میں ۱۸۴؍تسلیم شدہ ذاتیں ہیں۔ 
 بار اور بینچ نے ادھے ندھی اسٹالن کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم نہیں دیا لیکن کہا کہ ان کے تبصرے تفرقہ انگیز اور آئینی اصولوں کے خلاف تھے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
 واضح رہے کہ وزیر کے تبصروں نے ملک گیر تنازعہ کو جنم دیا تھا، جس میں ان کے خلاف مہاراشٹر، اتر پردیش، جموں کشمیر، تمل ناڈو اور کرناٹک میں ابتدائی اطلاعات کی رپورٹ درج کی گئی تھیں۔ 
بار اور بینچ کے مطابق گزشتہ سال، ہائی کورٹ کے ۱۴؍ ریٹائرڈ ججوں سمیت۲۶۲؍ افراد نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا جس میں ادھے ندھی اسٹالن کے تبصرے کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں ان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ دریں اثنا پیر کو، سپریم کورٹ نے ادھے ندھی اسٹالن کو ان کے تبصرے کیلئے بھی پھٹکار لگائی تھی اور کہا کہ انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا غلط استعمال کیا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK