Inquilab Logo

متھرا: مسلم فریق کی کامیابی، شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کے حکم پرروک

Updated: January 17, 2024, 9:44 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

سپریم کورٹ نےعبادتگاہ قانون سے متعلق عرضی زیر التواء ہونے کا جواز تسلیم کیا۔

Shahi Eidgah Mosque of Mathura. Photo: INN
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد۔ تصویر : آئی این این

سروے کے نام پر کورٹ کمشنروں کی تقرری کے ذریعہ تاریخی مساجد کو متنازع بنانے کی بھگوا جماعتوں کی کوششوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب سپریم کورٹ نے متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کیلئے کورٹ کمشنر کی تقرری کے حکم پر روک لگا دی۔ عدالت عظمیٰ نے کورٹ کمشنر کی تقرری کے  لئے ہائی کورٹ میں دائر درخواست کو انتہائی مبہم لیکن غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عرضی  میں اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے تھی کہ اس سے کیا مقصود ہے،تاہم اس کو عدالت پر چھوڑدیا گیا ۔جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے اس معاملہ میں مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ذریعہ اٹھائے گئے قانونی نکات کا بھی حوالہ دیا۔
مسجد انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے پیش ایڈوکیٹ تسنیم احمدی نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ میں عبادتگاہ قانون سے متعلق عرضی زیرالتواء ہونے کی صورت میں الہ آباد ہائی کورٹ  کو کورٹ کمشنر کی تقرری کا حکم جاری نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلہ کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ جب عرضی کا قابل سماعت ہوناسوالات کے دائرے میں  ہو، ایسے میں  عدالتوں کو عبوری راحت فراہم کرتے ہوئے کم ازکم اس کے دائرہ کار پرفیصلہ کرنا چاہئے۔سپریم کورٹ کی بنچ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اس قانونی نکتے کو تسلیم کرتے ہوئےشاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کیلئے کورٹ کمشنر کی تقرری کیلئے دائر درخواست کے طریقہ کار پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ ہندو فریق کے وکیل شیام دیوان نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پرروک لگانے کی سختی سے مخالفت کرتےہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کو کورٹ کمشنر کی تقرری سے متعلق طریقہ کار کو وضع کرنے دینا چاہئے،اس پر بنچ نے عرضی کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عرضی کو اس طرح ہمہ گیر نہیں بنایا جاسکتا،اس میں وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ کورٹ کمشنر کی تقرری سے کیا مقصود ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بنچ نے ہی متھرا کی شاہی مسجد کو کرشن جنم بھومی قرار دے کراس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا۔عرضی میں کئی دعوے کئے گئے تھے ، تاہم بنچ نے کہا تھا کہ متعدد سول مقدمات کے زیر التواء ہونے کے پیش نظر اس کی ضرورت نہیں۔عرضی گزار نےدعویٰ کیا تھا کہ شاہی عیدگاہ مسجد زور زبردستی سے تعمیر کی گئی اور اسلامی فقہ کے مطابق مسجد جائز نہیں۔اس میں زمین کو ہندوؤں کو منتقل کرنے کاحکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عرضی میں شاہی عیدگاہ کی  اے ایس آئی کے ذریعہ جی پی آر ایس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کھدائی کا بھی مطالبہ کیاگیا تھا۔تاہم ،بنچ نے کہا تھا کہ عرضی موجودہ شکل میں قابل غور نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK