آج سزا سنائی جائے گی، اے ٹی ایس عدالت کے خصوصی جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے ۱۶؍ افراد کو قصوروار قرار دیا، ۱۰؍ سال سے عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
EPAPER
Updated: September 11, 2024, 12:32 PM IST | Abdullah Arshad | Lucknow
آج سزا سنائی جائے گی، اے ٹی ایس عدالت کے خصوصی جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے ۱۶؍ افراد کو قصوروار قرار دیا، ۱۰؍ سال سے عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
مبینہ تبدیلیٔ مذہب کےمعاملہ میں این آئی اے ؍اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت نے مولانا کلیم صدیقی اورعمر گوتم سمیت ۱۶ ؍افراد کو متعدد دفعات کے تحت قصور وار قرار دے دیا ہے ۔ ان تمام افراد کے خلاف ملک سے غداری ، مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے سمیت دیگرسنگین دفعات عائد کی گئی تھیں۔ قصوروار قرار دئیے جانے کے بعد سبھی ۱۶؍افراد کو عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ سرکاری وکیل ایم کے سنگھ کے مطابق، اے ٹی ایس نے مجموعی طور پر ۱۷؍ افرادکے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن ایک ملزم ادریس قریشی کو ہائی کورٹ سے اسٹے ملنے کی وجہ سے انہیں قصور وار نہیں قرار دیا گیا ہے ۔ بدھ کو خصوصی عدالت کے جج وویکا نند شرن ترپاٹھی سبھی ملزمین کو سزا سنائیں گے۔ جن دفعات میں ملزمین کوقصور وارقراردیا گیا ہے ان میں دس سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے ۔
اس سے قبل این آئی اے ؍اے ٹی ایس عدالت کے خصوصی جج وویکا نند شرن ترپاٹھی نے مولاناکلیم صدیقی اور عمرگوتم کے علاوہ ۱۶؍ افراد کو گروہ بنا کر دوسرے مذہب کےلوگوں کوروپے ، شادی اور ملازمت دلانے کالالچ دے کر سازش کے تحت غیر قانونی طور پر مذہب تبدیل کرانے کا قصوروار قرار دیا۔ خصوصی عدالت نے اس معاملہ میں سبھی ملزمین کو دفعہ ۴۱۷ ؍، ۱۲۰ -بی ، ۱۵۳ - اے، ۱۵۳ -بی ، ۲۹۵-اے ، ۱۲۱- اے ، ۱۲۳؍ اور غیر قانونی تبدیلی مذہب کی دفعہ ۳؍ ،۴؍ اور ۵کے تحت قصور وارٹھہرایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مبینہ تبدیلیٔ مذہب کا یہ معاملہ ۲۰۲۱ء میں اس وقت سامنے آیا جب اتر پردیش پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ ریاست میں تبدیلی مذہب کے ایک بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ پولیس کا الزام تھا کہ اس نیٹ ورک کے ذریعے خاص طور پر کمزور اور پسماندہ طبقات کے افراد کو فریب دہی اور لالچ کے ذریعے زبردستی اسلام قبول کرایا جا رہا تھا۔مولانا کلیم صدیقی پر الزام تھا کہ وہ اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے تھے اور مالی امداد فراہم کر رہے تھے تاکہ بڑے پیمانے پر پسماندہ طبقات کے لوگوں کا مذہب تبدیل کرایا جا سکے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مولانا اور ان کے ساتھیوں نے غیر قانونی طریقہ سے مذہب تبدیل کرانے کے لئے دیگر ریاستوں میں بھی کئی سرگرمیاں انجام دیں۔مولانا کے وکلاء نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ تبدیلیٔ مذہب ایک شخصی حق ہے اور اس کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چا ہئے۔ مولانا پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ جھوٹے اور بے بنیاد ہیں کیوں کہ کوئی بھی کسی کا بھی مذہب زبردستی تبدیل نہیں کرواسکتا۔ مولانا نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف الزامات سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر عائد کئے گئے ہیں تاکہ ان کی خدمات کو نقصان پہنچایا جا سکے اور انہیں بدنام کیا جاسکے۔ بہر حال اب مولانا کو قصوروار قرار دے دیا گیا ہے اور بدھ کو انہیں سزا بھی سنادی جائے گی۔