ہندوستان بھر میں کل ۳۲۴۲؍ مسلمان آیوروید ڈاکٹرہیں، ۲۸۰۶۲؍ یونانی ڈاکٹر مسلمان، محض ۷۱۷؍ یونانی ڈاکٹر غیر مسلم، ۷۰۰۲۷؍ مسلمان ہومیو پیتھی ڈاکٹرہیں، اس کے علاوہ نیشنل میڈیکل کمیشن میں کوئی مسلمان نہیں۔ساتھ ہی منی پور، میزورم اور ناگالینڈ میں کوئی مسلمان ڈاکٹر نہیں۔
گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے کے دوران مسلم معاشرے میں اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کا ایک جنون دیکھا گیا ہے۔ اس رجحان کے باوجود ملک بھر میں کل ٍ۱۲؍ لاکھ ۹۹؍ ہزار ۲؍ سو ۵۴؍ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں میں مسلم ڈاکٹروں کی کل تعداد ۱؍ لاکھ ۴؍ ہزار ۶۲؍ ہے۔ملک بھر میں تقریباً ۳؍ ہزار ۲؍ سو ۴۲؍ مسلمان آیوروید ڈاکٹر ہیں۔جن کی تعداد سب سے زیادہ ۹۱۵؍ گجرات میں ہے۔اس کے بعد جموں و کشمیر میں۱۵۷؍ ہے۔ کل ۲۸؍ ہزار ۷؍ سو ۷۸؍ یونانی ڈاکٹروں میں سے ۲۸؍ ہزار ۶۱؍ ڈاکٹر مسلمان ہیں۔ ان ڈاکٹروں کی سب سے زیادہ ۱۳؍ ہزار ۵؍ سو ۷۵؍ تعداد اترپردیش میں ہے۔ ہومیو پیتھی سے منسلک کل ۲؍ لاکھ ۲۳؍ ہزار ۵؍ سو ۳۱؍ ڈاکٹروں میں سے ۷۰؍ ہزار ۲۷؍ ڈاکٹر مسلمان ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسپتال میں ڈاکٹر ندارد، خاتون نے راستے میں بچے کو جنم دیا، بچے کی طبیعت بگڑی، علاج نہ ملنے سے موت
حال ہی میں شائع ایک کتاب ’’ مسلمس ان انڈیا- گراؤنڈ ریالیٹی ورسیس فیک نریٹیوس - اچیومنٹس اینڈ اکومپلیشمنٹ ‘‘ میں پیش کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق پیشہ ورانہ اور مشاورتی طبی اداروں میں بھی مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیشنل میڈیکل کمیشن، ری ہیبلیٹیشن کونسل آف انڈیا (آر سی آئی )اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ ( آئی سی ایم آر )کے سینئر ممبران اور اعلیٰ انتظامیہ میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ریاستی طبی کونسلوں کے صدور اور رجسٹراروں میں صرف دو مسلمان ہیں۔ نرسنگ کونسل آف انڈیا کے ۳۴؍ اہلکار ہیں جن میں صرف ایک مسلمان شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ : کمال عدوان، الوفا کے بعد اب ال اہلی اسپتال پر بھی اسرائیلی فوج کی بمباری
واضح رہے کہ ۱۸۳۵ء میں کلکتہ میں ہندوستان کا پہلا میڈیکل کالج بننے کے بعد آزادی کے وقت تک ملک میں ۱۹؍ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی ۱۰۰۰؍ نشستیں تھیں۔۱۹۴۶ءمیں، غیر منقسم ہندوستان کے میڈیکل رجسٹر پر ۴۷؍ ہزارڈاکٹر مندرج تھے، جن میں سے ۱۳؍ ہزار سرکاری تنخواہوں پر تھے۔ ہر سرکاری ادارے میں اوسطاً دو سے کم ڈاکٹر تھے۔۱۹۹۰ء تک میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھ کر ۱۴۳؍ہو گئی، جن میں زیادہ تر سرکاریتھے۔ ۲۰۱۰ء کے بعد سے، طبی تعلیم میں نجی شعبے کا غلبہ ایک نیا معمول بن گیا ۔ ۲۰۱۰ءتک، پرائیویٹ سیکٹر کے پاس نہ صرف میڈیکل کالج زیادہ تھے بلکہسرکاری اداروں کے مقابلے طلباء کی تعداد بھی زیادہ تھی، جس کی وجہ سے مالی حیثیت ہندوستان میں طبی تعلیم تک رسائی کا ایک اہم جز بن گئی۔