• Sat, 25 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی حکومت نے اڈانی گروپ کو بچانے کیلئے ایل آئی سی سے کروڑوں ڈالر نکالے

Updated: October 25, 2025, 5:59 PM IST | Mumbai

واشنگٹن پوسٹ کی تازہ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ مودی حکومت نے قرض میں ڈوبے ہوئے گوتم اڈانی گروپ کو مالی مدد فراہم کرنے کیلئے سرکاری لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) سے ۹ء۳؍ بلین ڈالر کی خاموش سرمایہ کاری کی۔ رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی ایک بار پھر مودی اور اڈانی کے تعلقات پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ دریں اثناء، ہندوستانیوں کی رقم کے ’’بے دریغ‘‘ استعمال پر ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے۔

Narendra Modi with Gautam Adani. Photo: INN
نریندر مودی گوتم اڈانی کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این

امریکی اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی جانب سے حاصل کردہ اندرونی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ مئی ۲۰۲۵ء میں ہندوستانی وزارت خزانہ، اس کے محکمہ مالیاتی خدمات (ڈی ایف ایس)، لائف انشورنس کارپوریشن (ایل آئی سی) اور پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ نے اڈانی گروپ کے بانڈز اور ایکویٹی میں سرمایہ کاری کیلئے ایک مربوط حکمت عملی تیار کی۔ اس منصوبے میں اڈانی پورٹس کیلئے ۵۸۵؍  ملین ڈالر کا بانڈ ایشو شامل تھا جس کی مالی اعانت ایل آئی سی کے ذریعے کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ منصوبہ اسی مہینے نافذ ہوا جب اڈانی کی ذیلی کمپنی کو موجودہ قرضے دوبارہ فنانس کرنے کیلئے ۵۸۵؍ ملین ڈالر جمع کرنے کی ضرورت پڑی۔ اڈانی گروپ نے ۳۰؍ مئی کو اعلان کیا کہ پورے بانڈ کی مالی اعانت ایل آئی سی نے کی ہے۔‘‘ 
رپورٹ کے مطابق، اس سرمایہ کاری کا مقصد اڈانی گروپ میں ’’اعتماد کا اشارہ‘‘ دینا اور دیگر سرمایہ کاروں کو راغب کرنا تھا، باوجود اس کے کہ گروپ کے قرض میں گزشتہ سال کے مقابلے میں ۲۰؍ فیصد اضافہ ہوا اور اسی دوران گروپ پر امریکہ میں بدعنوانی اور دھوکہ دہی کے الزامات بھی لگے۔ یاد رہے کہ امریکی محکمہ انصاف اور ایس ای سی نے اڈانی اور اس کے ذیلی ادارو ںپر اربوں ڈالر کی رشوت ستانی اور دھوکہ دہی کے الزامات لگائے ہیں جن میں توانائی کے معاہدے حاصل کرنے کیلئے غلط بیانات اور ۲۵۰؍ ملین ڈالر کی رشوت بھی شامل ہیں۔ تاہم، اڈانی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اس سے قبل امریکی شارٹ سیلر ہنڈن برگ نے ۲۰۲۳ء میں اڈانی گروپ پر اسٹاک میں ہیرا پھیری اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے جبکہ سیبی نے ستمبر ۲۰۲۵ء میں ان الزامات کو مسترد کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق کئی بڑے امریکی اور یورپی بینک اڈانی کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی عہدیداروں نے بھی اڈانی کو ایک ’’بصیرت مند کاروباری‘‘ کے طور پر پیش کیا جو بندرگاہوں، توانائی اور انفرااسٹرکچر میں پھیلے اپنے کاروبار کو ملک کے اقتصادی مقاصد کیلئے اہم سمجھتے ہیں۔ تاہم، رپورٹ کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ ایل آئی سی، جو لاکھوں ہندوستانیوں کا بیمہ کرتی ہے اور جن میں بہت سے کم آمدنی والے ہیں، کیلئے ایسے سیاسی طور پر جڑے نجی گروپ میں خطیر سرمایہ کاری کرنا خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ گروپ پہلے ہی عالمی جانچ کے دائرے میں ہے۔ رپورٹ میں نقل شدہ آزاد تجزیہ کار ہیمندرا ہزاری نے کہا کہ ایل آئی سی کیلئے نجی کارپوریٹ ادارے میں اتنی بڑی رقم لگانا ’’غیر معمولی‘‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر ایل آئی سی کو نقصان پہنچا تو صرف حکومت ہی اسے بچا سکتی ہے۔‘‘ 
یاد رہے کہ مودی اور اڈانی کے قریبی تعلقات کئی حلقوں، بشمول اپوزیشن لیڈروں اور سول سوسائٹی، کی جانب سے تنقید اور الزامات کا موضوع رہے ہیں۔ تاہم، اڈانی گروپ نے ان الزامات کو ’’ہندوستان کے خلاف سازش‘‘ قرار دیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ماہرین اس بیل آؤٹ کو ہندوستان میں بڑھتے ہوئے کارپوریٹ اسٹیٹ تعلقات کی مثال سمجھتے ہیں، جہاں اڈانی کی کامیابی حکومت کے معاشی منصوبوں کی عکاسی کرتی ہے اور ٹیکس دہندگان کو آخرکار مودی کے سب سے مضبوط اتحادیوں میں سے ایک کو برقرار رکھنے کا مالی خطرہ اٹھانا پڑتا ہے۔ 

اپوزیشن کا ردعمل
اس رپورٹ کے عام ہوتے ہی مودی حکومت اور اڈانی گروپ کے قریبی تعلقات پر سیاسی حلقوں اور شہری تنظیموں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ 
ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا نے ٹویٹس میں کہا کہ ۳۰؍ ہزار کروڑ ہندوستانی ٹیکس دہندگان کی رقم اڈانی گروپ کیلئے استعمال کی گئی؟ مودی حکومت گوتم اڈانی کو فنڈنگ کرتی رہتی ہے اور ہندوستانی انہیں پریشانیوں سے نکالتے رہتے ہیں۔‘‘

 کانگریس کے صدر جے رام رمیش نے بھی انکشافات پر تشویش ظاہر کی اور ایل آئی سی کے ذریعے عوامی پیسے کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے پوسٹ کیا کہ ’’بدعنوان کمپنیوں پر عوامی پیسہ خرچ کرنے کی حقیقت اس وقت واضح ہوئی جب ۲۱؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو امریکہ میں گوتم اڈانی اور ان سے منسلک ۷؍ اداروں پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ایل آئی سی کو ٹریڈنگ کے صرف چار گھنٹوں میں ۷؍ ہزار ۸۵۰؍ کروڑ ڈالر کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مبینہ ’’موڈانی میگا اسکیم‘‘ میں اداروں کے غلط استعمال، نجکاری میں دھاندلی، کوئلے کی مہنگی درآمد، اور سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کئے گئے معاہدے شامل ہیں۔‘‘

ایل آئی سی کا ردعمل
دریں اثناء، واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے بعد ایل آئی سی نے بیان جاری کیا کہ ان کے سرمایہ کاری کے فیصلے آزادانہ، پالیسیوں اور ریگولیٹری رہنما خطوط کے مطابق کئے جاتے ہیں اور کسی بھی بیرونی اثر کا ان پر کوئی اثر نہیں۔ اڈانی گروپ نے بھی کسی سیاسی مداخلت کی وضاحت کو رد کرتے ہوئے اسے ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK