یہ ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی کئے گئے تھے ،دارالحکومت میں اوقاف کی قیمتی جائیدادوں پر قبضے کا راستہ صاف کرنے کی کوشش۔
EPAPER
Updated: November 04, 2023, 8:50 AM IST | Shahid Iqbal | new Delhi
یہ ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی کئے گئے تھے ،دارالحکومت میں اوقاف کی قیمتی جائیدادوں پر قبضے کا راستہ صاف کرنے کی کوشش۔
دہلی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسرڈاکٹر محمد ریحان رضانے ایک حکم نامہ جاری کرکےدہلی وقف بورڈ کے۷۰؍سے زائد تربیت یافتہ ملازمین کوفوری طور پر نوکری سے نکال دیا۔ اس سے پہلے۱۳؍اکتوبرکودہلی سرکار کے محکمہ ویجی لینس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کلوندر یادو کے دستخط سے ایک خط جاری کیا گیا تھا جس میں ۱۹؍ اگست ۲۰۲۳ء کی ایک شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیا تھاکہ بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے دہلی حکومت سے منظوری لئے بغیروقف بورڈ میں کنٹریکٹ پر ملازمین کی بھرتی کی تھی جو کہ غیر قانونی ہے۔اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ ان ملازمتوں کو فوری طور پر رد کرنے اور امانت اللہ خان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ۲۰۱۹ء میں دہلی وقف بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین امانت اللہ خان نے بورڈ کے روز مرہ کے کام کاج اور وقف جائدادوں کے سروے اور دیگر کاموں کے لئے۱۰۰؍کے قریب ملازمین کو بھرتی کیا تھا جس میں سے کچھ ملازمین کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تھا اور باقی ملازمین ابھی تک دفتر وقف بورڈ میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔
دہلی میں اوقاف کے تحفظ کی لڑائی لڑنے والے حافظ جاوید نے اس خبر پر سخت غصہ کا اظہار کیا اورسوال کیاکہ آخر ان ملازمین کی کیا غلطی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر بورڈ کے ملازمین کو نکال دینے سے بورڈ کے کام کاج پر بہت برا اثر پڑے گا جو پہلے ہی مختلف وجوہات سے شدید متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملازمین کی بھرتی میں کوئی غلطی تھی تو اس کو درست کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان سبھی ملازمین کو دوبارہ تقرری نامہ دے کر ملازمت پر رکھا جائے۔اوقاف کے تحفظ کام کرنے والے سماجی خدمتگارسرفراز حسین نے بھی سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ملازمین پچھلے چار سال سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے ہر صورتحال کا مقابلہ کیا اور کئی کئی مہینوں تک تنخواہ نہ ملنے کے باوجود اوقاف کی قیمتی جائیدادوں کو محفوظ رکھنے کا کام کیا۔ اتنی بڑی تعداد میں ان نوجوانوں کو ہٹادینا ناانصافی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس سے وقف بورڈ کے کام کاج پر تو اثر پڑے گا ساتھ ہی اوقاف کے تحفظ کی لڑائی مزید کمزور ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ اس وقت وقف بورڈ میں کل۱۰۰؍کے قریب عملہ کام کر رہاہے جس میں لیگل اسٹاف سے لے کرانجینئراور فیلڈ اسٹاف بھی شامل ہے۔ ان۱۰۰؍ملازمین میں سے کل ۲۸؍ ملازمین پرانے اور مستقل ہیں جبکہ باقی ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں ۔ بعض سماجی کارکنان نے بتایا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان مستقل۲۸؍ملازمین میں سے اکثریت کی فہرست نچلے درجہ کے ملازمین کی ہے جن میں صرف ۲؍یو ڈی سی ہیں،۶؍ڈرائیور ہیں،۴؍چپراسی ہیں، ۵؍ایم ٹی ایس ہیں اور باقی ایل ڈی سی ہیں۔ان مستقل ملازمین میں نہ کوئی انجینئر ہے،نہ سرویئر،نہ اکاؤنٹنٹ،اور نہ وکیل اور نہ کوئی آفیسر رینک کا ملازم۔ ایسے میں کیسے وقف بورڈ کے سارے امور انجام پائیں گے ۔ذرائع کے مطابق وقف بورڈ میں پہلے۸۰؍اسٹاف کی ضرورت تھی جو اب بڑھ کر۱۲۰؍ہوگئی ہے جسے دیکھتے ہوئے کنٹریکٹ پر ملازمین کی بھرتی کی گئی تھی اور اس کے لئے باقاعدہ دہلی حکومت کی کابینہ کی منظوری بھی لی گئی تھی ۔حالانکہ وقف بورڈ میں کل۶۴؍منظور شدہ پوسٹ ہیں جنھیں بورڈ کے روز مرہ کے کام کاج نمٹانے کیلئے بھرنا ضروری ہے اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے باقی پوسٹس کی منظوری بھی ہونی ضروری تھی تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ کانٹریکٹ پر کام کرنے والےسارےملازمین تربیت یافتہ ہیں اوروقف بورڈ میں انہوں نے ہی سارا کام سنبھال رکھا ہے۔ وقف کے بعض جانکاروں نے بتایاکہ دراصل ان سب معاملات کے پیچھے ملی اداروں کو برباد کرنے کی ایک بڑی سازش کار فرماہے جس کے لئے کچھ مسلم نام والی کالی بھیڑوں کو پیچھے لگایا گیا ہے جو ایجنسیوں میں جھوٹی شکایات کرکے وقف بورڈ کو پوری طرح سے مفلوج کرنا چاہتی ہیں تاکہ اوقاف کی زمینوں خاص طورپرہزاروں کروڑ کی۱۲۳؍وقف جائدادوںپر قابض ہو جائیں اور انہیں ہڑپ کرلیں۔