• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ممبرا: شیل میں انہدامی کارروائی پھر شروع

Updated: November 04, 2025, 4:45 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbra

۲؍ عمارتوں کو خالی کروایا گیا ۔ اپنا گھربچانے کیلئے مکینوں نے شدید احتجاج کیا ۔چند افراد کی خودسوزی کی بھی کوشش۔

Demolition crew demolishing a building. Photo: Inqilabad
انہدامی دستہ ایک عمارت کے مکان کو توڑرہا ہے۔ تصویر: انقلاب
تھانے میونسپل کارپوریشن(ٹی ایم سی) نے شیل پھاٹا علاقے میں   واقع اے وی کے کمپاؤنڈ میں انہدامی کارروائی پیر سے ایک بار پھر شروع کردی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے یہاں ۲؍ عمارتوں کو خالی کروایا گیا اور مکینوں کی شدید مخالفت کے باوجود سہ پہر ۴؍بجے سے مکانوں اور دکانوں کو ہتھوڑوں اور جے سی بی کی مدد سے توڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ جیسے ہی انہدامی کارروائی شروع ہوئی اپنے آشیانے کو منہدم ہوتا دیکھ کر مکینوںکے آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔اس انہدامی کارروائی کیلئے بڑی تعداد میں انہدامی دستہ ، مشینیں اور سخت پولیس بندوبست میں طلب کیا گیا تھا۔ 
۳؍ روز قبل ان عمارتوں کو خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا تھا ۔ انہدامی دستے کی آمد کا سلسلہ پیر کی صبح سے ہی شروع ہو گیا تھا جسے دیکھ کر اپنی زندگی بھر کی کمائی اور قرض لے کر خریدا گیا اپنا آشیانہ بچانے کیلئے مکین انہیں روکنے کیلئے راستے پر بیٹھ کر احتجاج کرنے لگے۔  مظاہرین میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں شامل تھے ۔ متعددافراد نے پلے کارڈزلئے ہوئے تھے جن پر گھر کے بدلے گھر دو!، ہم غریبوں کا کیا قصور،ہمارے ساتھ انصاف کرو! کے نعرے لکھے ہوئے تھے اور بابا صاحب امبیڈکر کا سنویدھان لکھا ہوا تھا۔ مظاہرین ٹی ایم سی واپس جاؤ! کے نعرے لگا رہے تھے۔چند افراد نے اپنے آشیانے کو بچانے کیلئے پیٹرول ڈال کر خودسوزی کی کوشش کی تھی لیکن انہیں پولیس نے روک لیا اور اپنی تحویل میں لے لیا۔
  انہدامی دستہ کو روکنے کیلئے متعدد مکینوں نے میونسپل افسران سے بات چیت کی اور کچھ وقت دینے کی درخواست کی تھی۔ دوپہر۳؍بجے شیل ڈائے گھر کےسینئر پولیس انسپکٹر شری رام پول اور تھانے میونسپل کارپوریشن کے افسران نے مظاہرین کو سمجھایا کہ کورٹ کے حکم کے مطابق یہ کارروائی کی جارہی ہے، اگراسے روکنے کی کوشش کی جائے گی تو عدالت کےحکم کی  خلاف ورزی ہوگی۔ اس پر  مظاہرین افسران سے سامان نکالنے کیلئے مزید وقت مانگا ۔ آخر کار تقریباً ساڑھے ۳؍  بجے پولیس کی جانب سے مظاہرین کو حراست میں لینے اور منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا گیااور ۶؍ تا ۷؍ منزلہ لوٹس بلڈنگ اور اس کے بعد لِلی بلڈنگ کی دکانوں کو جے سی بی کے ذریعےتوڑنا شروع کیا گیا۔
جب یہ نمائندہ مظاہرین اور پولیس کی تکرار کی ویڈیو ریکاڈنگ کر رہا تھاتبھی سینئر پولیس انسپکٹر نے کہا کہ او پتر کار صاحب، پیچھے سے شوٹ کرنا، اگر بیچ میں آیا تو تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے ۔
  میونسپل اور پولیس اہلکاروں پر رشوت خوری کا الزام
پولیس فورس کے آگے اپنے آشیانے کو بچانے میں ناکام خاتون نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’ جس وقت یہ عمارت تعمیر ہو رہی تھی ، اس وقت  اسے روکنے کے بجائے میونسپل اور پولیس کے اہلکار رشوت لے رہے تھے۔ تو کیا  اس وقت یہ قانونی تھی؟‘‘انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ تعمیر شدہ عمارت میں مکان خریدنے پر ہمارا کیا قصور اگر یہ غیر قانونی عمارت تعمیر ہی کرنے نہیں دی جاتی تو ہم ان میں مکان نہیں خریدتے۔ ہم غریبوں نے اپنے عمر بھر کی کمائی لگا کر مکان خریدا ہے اور اگر اسے بھی ہم سے چھین لیا جائے گا تو ہم اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائیں گے؟‘‘
’’قرض لے کر مکان خریدا ہے‘‘
لوٹس بلڈنگ کے قریب اپنے گود میں بچی کو لئے کھڑی ایک خاتون نے بتایاکہ’’ میری بہن کرلا میں رہتی تھی ۔ اس نے حال ہی میں یعنی تقریباً  ۶؍  ماہ قبل اپنے زیورات کے عوض قرض لے کر لوٹس بلڈنگ کے چھٹے منزلہ پر ساڑھے ۱۴ ، ساڑھے ۱۴؍  لاکھ روپے میں ۲؍ فلیٹ خریدے تھے۔ ہم نے ۱۰؍ لاکھ روپے ادا بھی کر دیئے تھے اور ۴، ۴؍ لاکھ روپے ادا کرنا باقی تھے ، اب  یہ انہدامی کارروائی کی جارہی ہے۔اس میں بہن کا کیا قصور؟ اگر یہ عمارت غیر قانونی ہے تو متعلقہ میونسپل افسران سے ہماری بھرپائی کروانا چاہئے جس نے اسے تعمیر ہونے دیا تھا۔ ہمیں گھر کے بدلے گھر دینا چاہئے۔‘‘ 
انہدامی کارروائی روکنے کی کوشش کرنے والی انڈین یونین مسلم لیگ کی لیڈر فرحت شیخ نے بتایا کہ’’جس زمین مالک کی جگہ پر ۷؍ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں ، وہ خاتون کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے ان جگہوں کو خالی کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انہدامی کارروائی کیلئے آنے والے افسران سے ہم نے کورٹ میں درخواست کرنے کیلئے کچھ وقت مانگنے کی درخواست کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ۴؍ ماہ تو دیئے جاچکے ہیں اس دوران کورٹ سے رجوع ہو جانا چاہئے تھا۔ اب ہم کورٹ ہی کے حکم پر عمل کر نے آئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران پولیس نے مجھے بھی اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔‘‘ واضح رہے کہ یہ کارروائی ایسے موقع پر کی جارہی ہے کہ جب مقامی صحافی اور سماجی کارکن رفیق کامدار تھانے جیل میں ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK