Inquilab Logo

شاہی عیدگاہ مسجد معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پرمسلم دانشوروں اور تنظیموں کو تشویش

Updated: December 15, 2023, 11:13 AM IST | Inquilab News Network | Lucknow

متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ سروے کے حکم سے مسلم حلقہ میں مایوسی اور بے چینی ہے۔

Shahi Eid Gah located in Mathura which is of historical importance. Photo: INN
متھرا میں واقع شاہی عید گاہ جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ تصویر : آئی این این

متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ سروے کے حکم سے مسلم حلقہ میں مایوسی اور بے چینی ہے۔ البتہ معروف عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے مذکورہ معاملہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متھرا عیدگاہ سیکڑوں ہزاروں سال پرانی عبادت گاہ ہے اور کوئی بھی مسلم عبادتگاہ کسی زمین پرقبضہ کرکے نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ہی قبضے کی زمین پر عبادت قبول ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو’پلیسیز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء کے تناظر میں سنا جانا چاہئے تھا اوراس ایکٹ کونافذالعمل سمجھا جانا چاہئےتھا ۔ انہوں نے کہا کہ باربار اس طرح کے مسائل کا سامنے آنا باعث تشویش اور بحث طلب ہے، حالانکہ،ابھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے۔
اتر پردیش کانگریس اقلیتی سیل کے چیئرمین شاہنواز عالم نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو ’پلیسزآف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کی خلاف ورزی قرار دیا ۔انہوں نےکہا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ’ پلیسزآف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہےاور آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر پہلے وارانسی کی گیان واپی ، پھر بدایوں کی جامع مسجد اور اب متھرا کی شاہی عیدگاہ کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سپریم کورٹ اس پر خاموش ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ غیر آئینی طریقے استعمال کئےجا رہے ہیں اورآئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے لئے راستہ تیار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر کو اس حقیقت سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا کہ بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کرچکے ہیں جس میں آئین کے دیباچے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ڈپٹی اسپیکر جگدیپ دھنکڑ بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی بات کر چکےہیں۔
شاہنواز عالم کے مطابق، یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ سب عدلیہ پر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کی مثالیں ہیں جو ملک کو آمریت کی طرف لے جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں شری کرشن سیوا سنگھ نے۱۹۶۸ء میں ہی مسلم فریق کے ساتھ معاہدہ کرکے فیصلہ کیا تھا کہ مذکورہ زمین پر مندر اور مسجد دونوں ہی رہیں گی۔ اس فیصلے کی وجہ سے اب تک امن قائم ہے۔تاہم اب اگر عدالت کی مدد سے یہ امن خراب ہوتا ہے تو اس سے زیادہ افسوسناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK