Inquilab Logo

میانمار: فوج اور مسلح باغیوں کے تصادم میں ۳۰؍ لاکھ افراد بے گھر

Updated: May 10, 2024, 6:00 PM IST | Yangon

میانمار میں فوج اور باغیوں کے مابین جاری تصادم کے نتیجے میں تقریباً تیس لاکھ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں پناہ گزینوں کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ تصادم جمہوری طور پر منتخب آنگ سان سوچی کی حکومت کو فوج کے ذریعے بے دخل کرنے کےخلاف مسلح بغاوت سے شروع ہوا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، میانمار میں جاری تنازعے کے سبب ۳۰؍لاکھ سے زائد افراد بے گھرہو گئے ہیں۔اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہونے والے شہریوں کی تعداد میں گزشتہ چھ مہینوں میں ۵۰؍ فیصد اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے ۵۶؍ملین کی کل آبادی والے ملک کیلئے اسے ایک تاریک سنگ میل قرار دیا۔فروری ۲۰۲۱ءمیں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے والے فوج اور مسلح مزاحمتی گروپوں کے درمیان ہونے والی شدید لڑائی نے گزشتہ چند ہفتوں میں سنگین رخ اختیار کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان نے مالدیپ سے اپنے تمام فوجی واپس بلا لئے ہیں: مالدیپ حکومت

میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے رہائشی اور انسانی ہمدردی کے رابطہ کار نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’’میانمار ۲۰۲۴میں ایک گہرے ہوتے انسانی بحران کےسوال کے ساتھ کھڑا ہے جو فروری ۲۰۲۱ءمیں فوج کے قبضے کے بعد وسیع ہوتا گیااور اس کے نتیجے میں ملک کے بہت سے حصوں میں ہونے والے تصادم نے بڑی تعداد میں لوگوں کو تحفظ کی تلاش میں اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ جیسا کہ مخالف قوتوں نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں، فوجی حکومت (جنتا) مزاحمت کو دبانے پرآمادہ ہےجو اب عام شہریوں پراندھا دھند حملے کر رہی ہے۔ شہری علاقوں میں ہونے والی براہ راست لڑائی بھی حالات کو مزید خراب کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: شراب پالیسی معاملہ: سپریم کورٹ سے اروند کیجریوال کو عبوری ضمانت، ۲؍ جون کو خود سپردگی کرنی ہوگی

شہریوں کی ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حکومتی فوجی اسپتالوں، رہائشی کمپلیکس اور دیگر تنصیبات پر فضائی، بحری اور توپ خانے کا استعمال کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے روشنی ڈالی کہ ۳۰؍لاکھ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والی آبادی میں سے، تقریباً ۹۰؍فیصد کو بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعہ کے نتیجے میں اپنے آبائی گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔بےگھر ہونے والوں میں سے تقریباً نصف کا تعلق شمال مغربی علاقوں چن، میگ وے اور ساگانگ سے تھا، جن کی تعداد ۹؍ لاکھ سے زیادہ جنوب مشرق میں ہے۔ مغربی ریاست رخائن، جہاں ۳؍ لاکھ ۵۶؍ ہزارسے زیادہ لوگ رہتے ہیں مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔یہ وہی صوبہ ہے جہاں ۲۰۱۷ءمیں وحشیانہ فوجی کریک ڈاؤن نے ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا۔ 
فوجی دستے، جو کہ مزاحمتی قوتوں سے کہیں بہترطور پر مسلح ہیں، اب آدھے سے بھی کم ملک پر قابض ہیں لیکن دارالحکومت سمیت وسطی میانمار کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں۔ حال ہی میں ڈرون حملوں کے ذریعے سب سے بڑے شہر ینگون کونشانہ بنایا گیا۔صحت کی دیکھ بھال اور خوراک کی فراہمی کے نظام کے خاتمے کے سبب، ۶؍ملین بچوں سمیت ۶ء۱۸ملین افراد کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔
میانمارمیں یہ بحرا ن اس وقت پیدا ہوا جب سینیئر جنرل من آنگ ہلینگ نے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو بے دخل کر کےاقتدار پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جب فوج نے وحشیانہ طاقت کے ساتھ ان مظاہروں کو ختم کرنا چاہا تو یہ مسلح بغاوت میں تبدیل ہو گئے ۔
میانمار میں جسے برما بھی کہا جاتا ہےمخالفت نے اکتوبر ۲۰۲۱ء میں  اس وقت نئی رفتار پکڑی جب بڑی ملیشیاؤں نے مشترکہ طور پر تھری برادر ہڈ اتحادکے نام سے ایک مشترکہ حملہ کیا۔اراکان آرمی، میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی اور تانگ نیشنل لبریشن آرمی نے میانمار کی نسلی اقلیتوں کی طرف سے تشکیل دی گئی دیگر طاقتور ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر کار روائی شروع کر دی۔الجزیرہ کی خبر کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں، فوج تھائی لینڈ کے ساتھ سرحد پر واقع ایک بڑے تجارتی مرکز میواڈی کے کنٹرول کے لیے نسلی کیرن گروپوں کا بھی مقابلہ کر رہی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میانمار کے فوجی سربراہ نے رواں ہفتے کمبوڈیا کے سابق رہنما ہن سین سے بات چیت میں ملک میں انتخابات کرانے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔فوجی حکومت نے میانمار میں جمہوریت کو واپس لانے کا بارہا وعدہ کیا ہے لیکن انتخابات کب ہوں گے اس کا کوئی نظام الاوقات فراہم نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے الزام لگایا کہگزشتہ سال، فوج کی جانب سے قانونی، بیوروکریٹک اور مالی رکاوٹوں کے باعث زندگی بخش انسانی امداد کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچنے سے روک دیا گیا تھا۔  فوجی جنرلوں پر جنگی جرائم کا الزام ہے جن میں عام شہریوں پر فضائی حملے کرنے اور دیہاتوں کو زمین بوس کرنا شامل ہے،  اس کے علاوہ وہ اپریل ۲۰۲۱ء سےاب تک پانچ نکاتی امن منصوبے پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس پر انہوں نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ساتھی اراکین کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔ 
۲۰؍ہزار سے زیادہ لوگ جیلوں میں ہیں۔ آنگ سان سوچی، جن کا صحیح ٹھکانہ معلوم نہیں ہے، ایک فوجی عدالت میں خفیہ مقدمے کی سماعت کے بعد مشترکہ طور پر ۲۷؍سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔
اسسٹنس ایسوسی ایشن برائے سیاسی قیدیوں کے مطابق، فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک تقریباً ۵؍ ہزارافراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK