Inquilab Logo

میانمار: نیا فوجی قانون نافذ کرنے کی تیاری، نوجوانوں کی فرار ہونے کی کوشش

Updated: February 16, 2024, 7:08 PM IST | New Delhi

میانمار حکومت کی جانب سے نیا فوجی قانون نافذ ہونے سے پہلے نو جوانوں کی بڑی تعداد ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے فوج نے کہا تھا کہ وہ ایک قانون نافذ کرنے جارہی ہے جس کی رو سے اسے ۱۸؍ سے ۳۵؍ سال کے مرد اور ۱۸؍سے ۲۷؍ سال کی خواتین کو دو سال کیلئے فوجی خدمات پر مامور کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ خیال رہے کہ اسرائیل میں بھی یہی قانون ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

میانمار میں جنتا سرکار کی جانب سے فوجی خدمات نافذ کرنے کا اعلان کرنے کے بعد تھائی سفارت خانہ کے باہر ملک چھوڑ کر جانے والے ایک ہزار لوگ قطار میں کھڑ ے نظر آئے۔ گزشتہ ہفتے فوج، جو ۲۰۲۱ء، میں عوام پر کاری ضرب کے بعد سے مخالفت کا سامنا کر رہی ہے، نے کہا کہ وہ ایک قانون نافذ کر نے جا رہی ہے جس کی رو سے اسے ۱۸؍ سے ۳۵؍ سال کے مرد اور ۱۸؍ ۲۷؍ سال کی خواتین کو دو سال کیلئے فوجی خدمات پر مامور کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ 
جنتا سرکار کو ایک منتخب عوامی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد تین سال سے اپنی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر مخالفتوں کا سامنا ہے اور حال ہی میں اسے اقلیتی نسلی گروہوں کے اتحاد کے ہاتھوں لگاتار سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔ گزشتہ سنیچر کوجنتا سرکار کےاس اعلان کے بعد کہ، عوامی فوجی قانون کو نافذ کیا جائےگا، یانگون میں تھائی سفارت خانہ میانمار سے انخلاء کے خواہشمند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے بھرا پڑا ہے۔ 
جمعہ کو اے ایف پی نیوز ایجنسی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ اس اعلان سے پہلے سفارت خانہ کے باہر بمشکل ۱۰۰؍ افراد قطار میں کھڑے رہتے تھے مگر اب ایک سے ۲؍ ہزار لوگ لمبی قطار میں کھڑے رینگ رہے ہیں۔ سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ وہ قطار کو منظم کرنے کیلئے ایک دن میں ۴۰۰؍ سو ٹکٹ جاری کر رہا ہے۔ ۲۰؍ سالہ طالب علم انگ فیو نے بتایا کہ وہ جمعرات کی رات ۸؍ بجے سفارت خانہ پہنچا اور آدھی رات میں قطار میں لگنے سے پہلے اپنی کار ہی میں سو گیا۔ اس نے اے ایف پی کو حفاظتی نقطہ نظر سے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں تین گھنٹے لگے جب جمعرات کو رات تین بجے حفاظتی دروازہ کھول دیا گیا اور ہمیں سفارتخانہ کے سامنے دوڑنا پڑا تاکہ ٹوکن کیلئےاپنی جگہ حاصل کر سکیں ۔ 
ٹوکن ملنے کے بعد بھی لوگ اس امید پر قطار میں ہی کھڑے رہ گئے کہ شاید سفارت خانہ کی جانب سے زائد ٹوکن تقسیم کئے جا ئیں۔ 
یہ قانون اس سے پہلے کی جنتا سرکار نے ۲۰۱۰ء میں تحریر کیا تھا لیکن کبھی اس کا استعمال نہیں ہو ا اور اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کس طرح نافذ العمل ہوگا۔ اس تعلق سے کوئی تفصیل نہیں دی گئی ہے کہ بلائے گئے افراد سے کس قسم کی خدمات کی توقع کی جائے گی لیکن زیادہ تر نوجوانوں نے انتظار کئے بغیر اس سے بچنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ 
آنگ فیو نے کہا ’’میں سیاحتی ویزا پر بینکاک جا رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کچھ عرصہ وہاں ٹھہر جائوں۔ میں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ میں تعلیم حاصل کروں گا یا ملازمت کروں گابس اس ملک سے نکلنا چاہتا ہوں۔‘‘
جنتا نے کہا ہے کہ وہ فوج کے حمایتی گروہوں کو مسلح کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے کیونکہ وہ ملک بھر میں اپنے مخالفین سے نبرد آزما ہےجن میں فوج مخالف پیپلز ڈیفنس فورس اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا قدیم گروپ شامل ہے۔ جنتا کے ترجمان زائو من تو نے سنیچر کو کہا کہ’’ہمارے ملک کی صورت حال کے پیش نظر ہمیں فوجی سروس نظام کی ضرورت ہے۔‘‘مقامی نگراں گروپ کے مطابق فروری ۲۰۲۱ء کی بغاوت کے بعد سے فوج کے ذریعے اس کی سر کوبی کے نتیجے میں ۴؍ ہزار افراد ہلاک ہوئےتھے جبکہ اختلاف رائے رکھنے والے ۲۶؍ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK